29 جون، 2015

دو انتہائیں, TWO EXTREMES

ہمارے ہاں عمومی طور پر دو قسم کی انتہائیں ہیں۔ ایک انتہا کا تعلق مذہب سے ہے، یہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنی من پسند مذہبی یا فرقہ وارانہ توجیحات کو لے آتے ہیں۔ ان کے ہاں عدم برداشت عام ہے، یہ ہر قیمت پر اپنی بات نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہاں مذہب کے حوالے بہت ہوتے ہیں مگر اکثر کا دارومدار روایات اور زیادہ سے زیادہ احادیث پر ہی ہوتا ہے، قرآن سے حوالہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو سیاق و سباق سے الگ تھلگ اور اپنے اپنے فرقے کی پسندیدہ روایات کے ساتھ۔ یہ لوگ اس دنیا سے زیادہ اگلی دنیا کی باتوں میں مگن رہتے ہیں، ایسی باتوں سے ملا کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ان کی باتوں سے بعض اوقات ایسے لگتا ہے کہ جیسے اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں محض غصل اور ہاتھ، منہ اور پاؤں وغیرہ دھونے کے طریقے سیکھنے اور کچھ ورد وظیفے یاد کرنے کے لیں بھیجا ہوا ہے، یہ لوگ علّت و معلول (Cause and Effect) کو شاذ و نادر ہی مانتے ہیں۔ عورت پر اعتماد نہیں کرتے، اسے انسان اگر مانتے بھی ہیں تو صرف آدھا، انہیں پردوں، برقعوں، چادروں اور سکارفوں میں چھپا چھپا کر رکھتے ہیں، عورتوں کا واحد کام روایات پر مبنی مذہبی رسومات ادا کرنا رہ جاتا ہے۔ یہ لوگ عمومی طور پر شدت پسند ہوتے ہیں، اپنے آپ کو مکمل طور پر درست اور دوسروں کو مکمل طور پر غلط سمجھتے ہیں، اپنے نام نہاد نظریات دوسروں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہاں برداشت کا فقدان ہوتا ہے۔ بحث و مباحثہ سے دور بھاگتے ہیں اور صرف اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔
دوسری انتہا ان لوگوں کی ہے جو مذہب سے عاری، مادر پدر آزاد اور ماڈرن کہلوانے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو سائنسی سوچ کے حامل اور اعلی دانشور گردانتے ہیں۔ انہوں نے کبھی نہ قرآن پڑھا ہوتا ہے اور نہ سمجھا ہوتا ہے۔ یہ مذہب کو محض ملا کا فراڈ اور قرآن کو ملا کی کتاب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے ہاں ماڈرن کہلوانے کیلے  ہر انتہا جائز ہے۔ بکھرے بال، پھٹے اور گندے کپڑے، ننگ دھڑنگ لباس، نشے میں بدمست ہونا سب کچھ جائز ہے۔ یہ بھی اپنے علاوہ سب کو جاہل مطلق سمجھتے ہیں۔ ان میں ایک اور طبقہ ہے جو خود کو صوفیا کے پیچھے چھپاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام انسان مل جل کر رہیں، تحمل و برداشت سے کام لیں۔ ماڈرن اور ترقی پسند لوگ قرآن کو ملا کی کتاب نہ سمجھیں، خود سے پڑھیں اور سمجھیں اور اس سب سے بڑے انقلاب کی کتاب کو ملا اور فرقہ پرستوں کے قبضہ سے آزاد کروائیں۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے تہذیب و تمدن سے عاری صحرا نوردوں کو دنیا کی عظیم ترین قوم بنا دیا۔ افسوس کہ شہنشاہوں کے دسترخوان پر پلنے والے ملاؤں نے اسے انقلاب کی کتاب کی بجاُے محض رسومات اور مردے بخشوانے والی کتاب بنا کر رکھ دیا ہے۔ اہل دانش آگے بڑھیں اور اس کے اصل اور حقیقی اسباق کو سامنے لائیں۔
اس کتاب کے مطابق مسلمان امت وسطی ہیں یعنی دونوں انتہاؤں کے بیچ میں Balanced between the two extremes.

تلاش کیجئے