22 جون، 2015

بنی اسرائیل کی تاریخی داستان(غلامی سے آزادی)حصہ دوم

موسیٰؑ   کا مدائین میں قیام  دوران قیام بکریاں چرانا
 کائنات کی وسعتوں سے روشناس ہونا
سمندر یعنی خلیج عقبہ کے مد و جذر کا گہرا مطالعہ
 شعیبؑ سے تعلیم و تربیت کا حصول
قدرت بنی اسرائیل کی فرعون سے آزادی کے لئے ان کے لیڈر کی ہر طرح سے تربیت کر رہی ہے، اسباب پیدا کر رہی ہے، فرعون کے محل میں پہنچا کر اس کی حکمت عملی کا وافر تجربہ کروا دیا، جس دشوار گزار راستے سے کل کو بنی اسرائیل کو مصر سے نکالنا ہے اس پر سفر کروا دیا اور اب تربیت کا اگلا مرحلہ مدائین میں مکمل ہونے جا رہا ہے۔ واضع رہے کہ قدرت اسباب پیدا کر رہی ہے اور ہر چیز علت و معلول Cause and Effect کے قوانین کے تحت ہو رہی ہے اور یہ قوانین تمام انسانوں کے لئے یکساں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہب کو رسومات میں بدلنے والے قسم قسم کی کہانیاں گھڑ کر طرح طرح کے مغالطے پیدا کر دیتے ہیں۔حالانکہ حق کا راستہ تو سیدھا اور سادہ ہے۔
سلطان باہوؒ کہتے ہیں:
مذہباں دے دروازے اچے، حق دے راہ نوں موری ہُو
ملا پنڈت لنگن نہ دیندے، جو لنگیا سو چوری ہُو
اب موسیؑ نے معاہدے کے تحت شعیبؑ کی بکریاں چرانا شروع کیں گویا فرعون کے محل سے نکل کر چرواہا بن گئے، دس سال تک خلیج عقبہ کے مشرقی بیابانوں میں بکریاں چرائیں، یہاں کھلے ماحول میں کائنات کی بیکراں وسعت کا اندازہ ہوا، صحرائی اور کوہستانی زندگی کی دشواریوں اور سختیوں سے روشناس ہوئے، اور جس سمندر کو بنی اسرائیل کے قافلے کے ساتھ کل کو عبور کرنا ہے، اس کا گہرا مطالعہ کرنے کا موقع ملا، یعنی چوبیس گھنٹوں میں کس وقت سمندر کی لہریں پیچھے ہٹتی ہیں اور سمندر خشک ہو جاتا ہے، کتنے فاصلے تک پانی پیچھے ہٹتا ہے اور کتنی دیر کے لئے ہٹا رہتا ہے۔ اور جب سمندر کی لہریں واپس آتی ہیں تو کتنا وقت لیتی ہیں اور ان کی رفتار کیا ہوتی ہے۔ یہ مشاہدہ اور مطالعہ موسیؑ دس سال تک متواتر کرتے رہے، اس طرح انہیں خلیج عقبہ کے پانیوں کے ہر موسم میں ہونے والے مد و جذر کے بارے تمام باریکیاں ازبر ہو گئیں۔
بکریاں چرانا بھی ایک زبردست تجربہ ہے، یہ ادھر ادھر بھاگتی رہتی ہیں، انہیں چرواہا اپنے آپ سے مانوس کرتا ہے، منظم کرتا ہے، ان کے لئے درختوں سے پتے وغیرہ جھاڑتا ہے، مناسب وقت پر پانی کے چشمے یا کنویں پر لے کر جاتا ہے۔ گویا چرواہا ایک اچھا منتظم بن جاتا ہے۔ موسیؑ نے کل جو ایک بہت بڑی قوم کو منظم کرنا تھا، اس لئے یہ تربیت ضروری تھی۔ ویسے تو تمام پیغمبروں نے بکریاں چرائیں اور تمام چرواہے رہے، جد پیغمبراں ابراہیمؑ بھی چرواہا رہے، جنہوں نے نمرود کے جبر و استبداد اور نفرت و آتش فشانی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق کا علم بلند کیا۔
ہمارے ہاں  اکثر مویشی چرانے والے گوجر قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔
 وہ فخر سے کہتے ہیں:
گوجر ذات پیغمبراں دی
موسو وی بکر وال ہویو
ان سب تجربوں سے بڑھ کر موسیٰؑ  کی شعیبؑ کے ہاتھوں تعلیم و تربیت تھی چرواہے تو کئی ہوتے ہیں مگر یہ شعیبؑ تھے جنہوں نے موسیٰؑ  کوچرواہے سے کلیم اللہ بنا دیا، قدرت کے اسرار و رموز سمجھا دئے، ایک عظیم دانشور بنا دیا، ایک محکوم و غلام قوم کی راہنمائی کی مکمل تربیت  دی۔ 
اقبالؒ کہتے ہیں: 
اگر شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
اس طرح دس سال گزر گئے،شعیبؑ نے موسیٰؑ  کو مصر واپس جانے کی اجازت دے دی، تب تک مصر میں فرعون بدل گیا تھا، موسیٰؑ  کا واقعہ پرانا ہو چکا تھا اور موسیٰؑ   کو بظاہر کوئی خطرہ نہ تھا، موسیٰؑ  بھی اپنے قبیلے اور بالخصوص اپنے بڑے بھائی ہارونؑ کو ملنے کے لئے بیتاب تھے، اپنی بیوی صفورہ کو لے کر مصر کی جانب چل پڑے۔
موسیٰؑ کی مدائین سے مصر واپسی، فرعون کو حق کا پیغام، فرعون کے ساحروں کے ساتھ مناظرہ
موسیٰؑ مدائین سے انہی مانوس راستوں سے مصر کی جانب چل پڑے جن پر چل کر مصر سے مدائین پہنچے تھے راستے میں قدرت نے موسیٰؑ کو فرعون کو دعوت حق دینے کا مشن سونپا واضع رہے کہ اب موسیٰؑ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی، ان کا صداقت اور امانت کا کردار قوم کے سامنے تھا، ان پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی قدرت نے فرعون کا مقابلہ کرنے اور بنی اسرائیل کو منظم کرنے کی اہلیت مختلف اسباب پیدا کرکے مکمل کر دی تھی اب انہیں کہا گیا کہ اب تک وہ عصا کے ساتھ بکریاں ہانکتے تھے، درختوں سے پتے جھاڑتے تھے اور اب عصا کو استعمال کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو منظم کرو اور فرعون کی غلامی سے آزاد کروائیں، موسیٰؑ نے دعا کی کہ اس کام میں ان کے بڑے بھائی ہارون کو بھی شامل کر دیں، موسی نے واضع کیا کہ ہارون کو مصر کی زبان پر عبور حاصل ہے اور مؤثر گفتگو کر سکتے ہیں جبکہ اپنے بارے میں بیان کیا کہ دس سال مصر کی آبادیوں سے دور، جنگلوں بیابانوں میں رہتے ہوئے ان کی مصری زبان کی فصاحت و بلاغت میں کمی آ گئی ہے، قدرت نے موسیٰؑ کی دعا قبول کر لی یوں موسیٰؑ اور ہارونؑ نے یہ کام نبھانے کی ٹھان لی انہیں بتایا گیا کہ فرعون سخت طبیعت والا ہے اور اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا کہ کہیں وہ فوری نقصان نہ پہنچائے،
یہ بھی واضع رہے کہ ہارونؑ موسیٰؑ سے تین سال بڑے تھے،اکثر علماء نے مشہور کر رکھا ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے مرد بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیتا تھا اور موسیٰؑ بس زندہ بچ گئے اور نہ صرف بچ گئے بلکہ ان کی پرورش و تربیت بھی فرعون کے محل میں ہوئی، تو کئی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ہارونؑ کیسے زندہ بچ گئے؟ اور موسیٰؑ کی قوم میں مرد ہونے ہی نہ چاہئے تھے، فقط عورتیں ہی ہونا چاہئے تھیں؟ 
بات یہ ہے کہ فرعون اگر مرد بچوں کو مروا دیتا تھا تو غلام کم ہو جاتے اور فرعونی نظام کا سارا دارومدار ہی غلاموں پر تھا، اس طرح کے بے شمار مغالطے پیدا کئے گئے ہیں، جن کی تصحیح ضروری ہے۔
فرعون بنی اسرائیلیوں کے مردوں کو نہیں ان کی مردانگی کو قتل کر دیتا تھا، کچل دیتا تھا، عزت نفس کو تہس نہس کر دیتا تھا اور فقط نسوانیت کو زندہ رہنے دیتا تھا اور نسوانیت ہمیشہ  کمزوری اور غلامی کی علامت رہی ہے۔
اب موسیٰؑ  و ہارونؑ دعوت حق دینے کے لئے فرعون کے پاس گئے، توحید کا پیغام دیا اور نئے نظام کا نقشہ پیش کیا، فرعون نے ہامان (اپنے نظام کے مفتئ اعظم) کو بلایا اور اسے کہا کہ ساحروں (مذہبی چیلوں) کو بلاؤ کہ وہ موسیٰؑ سے مناظرہ کرکے انہیں خاطر خواہ جواب دے کر غلط ثابت کریں تا کہ کہیں یہ لوگوں کو گمراہ نہ کر دیں ،ساحر کا لفظ اپنے مذہبی چیلوں کے لئے فرعون نے ہی استعمال کیا کیونکہ وہ انہی ساحروں کے ذریعے عوام الناس کو غلامی کے سحر میں مبتلا رکھتا تھا، یہ فرعونی قوتیں ہی تھیں جو پیغمبروں کو بھی ساحر کہتی رہیں، اللہ تعالی اور حق کی قوتوں نے کہیں بھی ساحر کا لفظ استعمال نہیں کیا، وہ تو طبعی قوانین کی بات کرتے رہے جو پوری کائنات میں واحد ہیں اور یہ قوانین کی وحدانیت ہی توحید ہے۔
فرعونی و ہامانی ساحروں سے مناظرہ
ایک مجمع عام میں ساحروں نے مدّلل طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے نظریات پیش کئے اور فرعونی نظام کو درست ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی، لوگ متاثر ہونے لگے، موسیٰؑ تھوڑے سے متذبذب ہوئے کہ شائد ان کی بات مجمع پر اثر نہ کرے، قدرت نے تسلی دی کہ ان ساحروں کی دلیلیں تو کچھ بھی نہیں ہیں، تمہارے پاس زبردست پروگرام ہے اور فتح  حق  کی  ہی ہو گی۔ ساحروں کے بعد موسیٰؑ نے آواز حق بلند کی، اپنا پروگرام پیش کیا، فرعونی نظام کو غیر انسانی ثابت کیا۔ ساحروں کی باتیں ہوا میں اڑ گئیں، اور سب سے پہلے ان ساحروں نے ہی موسیٰؑ کی صداقت پر مبنی باتوں کی تصدیق کی بلکہ ببانگ دہل موسیٰؑ کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا، فرعون غصے سے بولا کہ اس کے ساحر تو موسیٰؑ کے چیلے ثابت ہوئے اور کہا موسیٰؑ سب سے بڑا ساحر ہے اور یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں، فرعون نے اپنے ساحروں کو سخت ترین سزائیں دینے کا حکم صادر کیا،فرعون نے گھوڑے منگوائے، اپنے ہر ساحر کی ٹانگوں کو  رسے باندھ کر گھوڑوں کی ساتھ باندھ دئیے، ساحر جو کہ اس قوم کے سب سے بڑے دانشور تھے، اہل علم تھے، نے کہا کہ ان پر حق واضع ہو گیا ہے، وہ گمراہی سے نکل آئے ہیں اور وہ کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں، فرعون نے گھوڑے مخالف سمت میں دوڑا کر اپنے ساحروں کے جسموں کو چیر کر بد ترین سزا دی اور لوگوں کو موسیٰؑ سے دور رہنے کا سخت ترین پیغام دیا۔
اس طرح نظریاتی محاذ پر موسیٰؑ و ہارونؑ کو زبردست فتح نصیب ہوئی مگر وہ فرعون کے راہ حق پر آنے کی امید سے مکمل مایوس ہو گئے، اب ایک ہی طریقہ رہ گیا کہ بنی اسرائیل کی تربیت کی جائے، منظم کیا جائے اور فرعون کی غلامی سے کہیں دور لے جایا جائے۔
موسیٰؑ اور ہارونؑ کا بنی اسرائیل کی تعلیم و تربیت اور تنظیم نو کرنا
کسی بھی تحریک میں اور جدوجہد میں راہنما کی ضرورت ہوتی ہے، قوم کا راہنما پر مکمل اعتماد ہونا نہائت ہی اہم ہے۔ لہاذہ راہنما نے قوم کے سامنے جو زندگی گزاری ہو، وہ بے داغ اورصاف و شفاف ہو، راہنما کی صداقت و امانت کی شہادت ہر خاص و عام دے رہا ہو، وہ مجمع میں کھڑا ہو کر چیلنج کر سکتا ہو کہ اس کے کردار کی حقانیت پر کسی کو ذرا سا شبہ بھی ہے تو بتایا جائے، عوام الناس کا جب تک اپنے راہنما کی جامع راہنمائی پر یقین کامل نہ ہو، اتحاد و تنظیم کی راہیں ہموار نہیں ہوتیں۔ اسی طرح دشوار گزار راستوں پر رواں دواں ہونے کے لئے عقل و شعور کے ہتھیاروں سے مسلح ہونا بھی ضروری ہے یعنی راہنما بہادر ہو، مشکلات سے لڑ سکتا ہو، محض پند و نصیحت ہی کرنا نہ جانتا ہو کہ جہاد زندگانی میں خواہشات کی تکمیل محض باتوں سے نہیں ہوتی، موسیٰؑ کی ذات میں یہ صفات موجود تھیں، قدرت نے ان کی ہر پہلو سے تربیت کر رکھی تھی اور اب وہ تاریخ عالم کے بہت بڑے انقلاب کی بنیاد رکھنے جا رہے تھے۔
ید بیضا اور عصا  .WHITE HAND and ROD of Moses
ید بیضا علامت ہے موسیٰؑ کے بلند و بالا اور بے داغ کردار کی، یعنی ان کا ہاتھ صاف ہے، اس پر کسی قتل ناحق کا داغ و دھبہ نہیں، ان کے ہاتھوں نے کسی کی جائیداد غصب نہیں کی، کوئی ناجائز و ممنوع کام نہیں کیا۔ وہ مجمع میں کھڑے ہو کر اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ببانگ دہل اعلان کرتے تھے کہ اے گروہ مردم! تم گواہ ہو کہ میرے ہاتھ صاف و سفید ہیں، کسی غلط کام میں ملوث نہیں رہے۔ اس لئے جو باتیں میں کر رہا ہوں، ان کو سچ مانو، ایمان لاؤ، انہی میں فرعون کی خدائی سے تمہاری نجات کی راہ ہے۔ 
اس طرح یہ واضع ہے کہ ہر سچے راہنما کا ہاتھ ید بیضا ہونا چاہئے، اس کی صداقت و امانت کے ڈنکے بج رہے ہوں، گویا ہر نبی، ہر رسول، ہر پیغمبر اور ہر ہادی و راہنما کا ہاتھ ید بیضا ہے جیسا ہونا چاہئے۔ اس کے بغیر قوم اعتماد نہیں کر سکتی اور ابلیسی قوتیں دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے اور اندر و باہر سے حملہ آور ہوتی رہتی ہیں، لہذا کردار مستند و مسّلمہ ہونا ضروری ہے۔ لیڈر کا ماضی ایسا ہو کہ اس نے ہمیشہ بے خوف و خطر حق کا ساتھ دیا ہو، اسے اپنے کردار پر فخر ہو۔ محمد رسول اللہﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تھا  " میں وہ ہوں جو حلف الفضول میں شامل تھا" یعنی انہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے۔ (حلف الفضول ایک معاہدہ تھا جو مکہ کے چار فضل نام کے اشخاص نے کیا تھا کہ وہ باہر سے آئے ہوئے تاجروں کا تحفظ کریں گے جنہیں مکہ کے اوباش نوجوان تجارتی میلہ کے موقع پر لوٹ لیا کرتے تھے۔ یہ اعلان نبوت سے بہت پہلے کی بات ہے)
عصا کیا ہے؟ 
عصا عقل و شعور کی منصوبہ بندی کے ساتھ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عملی جدوجہد کا نام ہے،عصا ایک علامت ہے، ہتھیار ہے، میدان کارزار میں ہمت و شجاعت کا نام بھی ہے۔ محض باتوں سے، محض کلیمی سے انقلاب برپا نہیں ہوتے، عصا ضروری ہے، عملی جدوجہد ضروری ہے۔
 اقبالؒ کہتے ہیں:
رشی کے فاقوں سے نہ ٹوٹا برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
یعنی محض چلہ کشیوں، فاقہ کشیوں کی منتوں مرادوں سے برہمن کی لوٹ مار کا طلسم نہیں ٹوٹا کرتا، اس کے لئے عصا لے کر میدان میں کودنا پڑتا ہے گویا یہ اصول بھی طے ہو گیا کہ ہر راہنما کو محض تقریروں، باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا بلکہ عصا لے کر عملی جدوجہد لازم ہے۔ اس طرح تمام نبی، تمام رسول، تمام پیغمبر اور ہادی و راہنما اپنا اپنا عصا لے کر عملی جدوجہد کے لئے میدان کار زار میں نکلے اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔ 
افسوس کہ حقیقت کو خرافات میں بدلنے والے پادریوں اور انہی کے نقش قدم پر چلنے والے ملاؤں نے ید بیضا اور عصا کے مفہوم بدل دئیے، ید بیضا کو جادوگری جیسی کوئی چیز بنا دیا اور عصا کو ایک طرح کی جادو کی چھڑی۔ موسیٰؑ اور ہارونؑ نے اپنی ید بیضا اور عصا کی بے پناہ قوتوں کے ساتھ بنی اسرائیل کی غلام قوم میں آزادی کی شمعیں روشن کر دیں، لیکن صدیوں کی غلامی نے ان کی مردانگی کو کچل کے رکھ دیا تھا اس لئے ضروری ہو گیا کہ بنی اسرائیل کی مزید تربیت کسی آزاد فضا میں کی جائے اور مصر کے غلامانہ ماحول سے کوچ کر جانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔
موسیٰؑ کی قیادت میں بنی اسرائیل کا مصر سے خروج   The Exodus
بنی اسرائیل اپنے جد امجد یعقوبؑ کیساتھ 1875 ق -م میں خوش و خرم اور عزت و احترام کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے تھے۔ یہ شان و شوکت یوسف ؑ کی وجہ سے تھی, چار سے زائد صدیاں گزر گئیں، یوسفؑ رحلت فرما گئے، حکمران بدل گئے  نئے فرعونوں نے بنی اسرائیل کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا قدرت نے اپنے منصوبے کے تحت بنی اسرائیل میں سے موسیؑ کو پیدا کیا اور بنی اسرائیل کی راہنمائی کے تیار کر دیا، موسیٰؑ و ہارونؑ نے فرعون عصر کو راہ حق کی دعوت دی مگر سخت مایوس ہوئے ادھر بنی اسرائیل کی قوم میں صدیوں کی ذلت آمیز غلامی نے سارا دم خم نکال دیا تھا، وہ فرعون کے سامنے کھڑا ہونا تو دور کی بات، فرعون کا نام سن کر ہی کانپنے لگتے تھے لہذا ضروری تھا کہ بنی اسرائیل کو فرعون کے غلامانہ ماحول سے کہیں آزاد فضا میں لے جا کر ان کے اندر کا ڈر ختم کیا جائے،  ایسا نہیں تھا کہ بنی اسرائیلی آزادی نہیں چاہتے تھے۔ وہ آزادی چاہتے تو تھے مگر بغیر کسی قربانی کے، بغیر کوئی جدوجہد کئے، ان کے اندر کا اعتماد اور ہمت و مردانگی کچلی جا چکی تھی۔ 
اب موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر مدائین کے بیابانوں میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ نہایت منظم انداز میں منصوبہ بندی کی گئی کہ فرعون کو کانوں کان خبر نہ ہو بنی اسرائیل مصر میں گھوشن کے مقام پر رہائش پذیر تھے، یہ علاقہ فرعون کے محلوں سے الگ تھا یہ دریائے نیل کے مشرق میں واقع تھا جبکہ فرعون کا دارالخلافہ میمفِس دریائے نیل کے کنارے پر گھوشن سے شمال مغرب کی جانب تھا بنی اسرائیل کا مدائین کی جانب کا سفر بھی مشرق کی سمت میں تھا  اس کے راستے میں دریائے نیل تو آتا ہی نہ تھا، خلیج سویز کو بھی عبور کرنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ گھوشن سے خلیج سویز کے مشرقی ساحل کی طرف آسانی سے پہنچ جانے کا راستہ موجود تھا، یہ سارے بیابانوں، صحراؤں، کوہستانوں اور سمندروں کا راستہ موسیٰؑ  کا دیکھا بھالا تھا وہ مصر سے مدائین اور دس سال بعد مدائین سے مصر کی واپسی کا سفر اسی راستے سے کر چکے تھے، یوں وہ اس راستے کی تمام تر پیچیدگیوں سے بخوبی واقف تھے جبکہ فرعونی اس بیابانی علاقے کی پیچیدگیوں سے پوری طرح واقف نہ تھے، 
بنی اسرائیل نے اپنا سارا سازوسامان اور ہر قسم کی جمع پونجی اکٹھی کر لی، مال مویشی بھی ساتھ لے جانے کی تیاری کر لی، سب سے قیمتی اثاثہ یوسفؑ کی باقیات بھی ان کے مصری مقبرے سے نکال کر ساتھ لے جانے کا اہتمام کر لیا، یہ یوسفؑ کی وصیت بھی تھی کہ جب مصر سے کوچ کرو تو ان کی باقیات ساتھ لے جا کر اپنے نئے مسکن کے پاس دفن کر لینا،
بنی اسرائیل کی قوم بارہ قبیلوں پرمشتمل تھی اور ان کی آبادی اندازاً  چھ لاکھ نفوس پرمشتمل تھی۔ بارہ قبیلے 430 سال تک مصر میں قیام پذیر رہے اور اگر اتنے عرصے میں ہر قبیلے کی اوسط آبادی پچاس ہزار تک بھی پہنچ چکی ہو تو بارہ قبیلوں کی آبادی کا چھ لاکھ تک پہنچ جانا، کسی طور بھی بعید از قیاس نہیں۔ البتہ کچھ مؤرخین نے تعداد چھ لاکھ سے بھی زیادہ ہو جانے کا عندیہ دیا ہے۔
ذرا تصور کیجئے کہ چھ لاکھ کے قافلے کو بیابانوں سے خامشی و حفاظت سے گزار کر مدائین پہنچانا  جس میں بچے، بوڑھے، جوان اور ہر عمر کی خواتین شامل تھیں ہر گز ایک آسان معرکہ نہ تھا ۔ موسیٰؑ نے انتہائی منظم طریقے سے قافلے کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے عظیم سفر کا آغاز کیا،انجیل مقدس اور ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق مصر سے مدائین تک کے سفر میں  پچاس قیام کئے اورسات ویرانے Wildernesses عبور کئے۔(ان سب کی تفصیل انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ آپ The Exodus Route لکھ کر تلاش کریں، ساری تفصیلات نقشوں سمیت سامنے آ جائیں گی۔ البتہ مذہبی مفسرین نے شدید غلطیاں کر کے اپنی لا علمی، ہٹ دھرمی اور جہالت کے متعدد ثبوت فراہم کئے ہیں۔)
موسیٰؑ بنی اسرائیل کو مانوس راستوں سے گزارتے ہوئے، خلیج سویز کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ مجمع البحرین کے پاس سے گزرتے ہوئے بحرۂ ا حمر اور خلیج عقبہ کے بیچ میں واقع آبنائے تائیران(Straits of Tiran)  تک لے آئے۔
اب بنی اسرائیل کو خلیج عقبہ کے سمندر کو عبور کرنا تھا، اب یہاں پر تین امکانات ظاہر کئے گئے ہیں۔ پہلا آبنائے تائیران سے خلیج عقبہ کو عبور کرنا، دوسرا شمال میں خلیج عقبہ کو عبور کرنا اور تیسرا انتہائی شمال سے عبور کرنا۔ موسیٰؑ نے خلیج عقبہ کے کناروں پر دس سال بکریاں چرائیں تھیں، انہیں اس سمندر کے مد و جذر کا بخوبی علم تھا کہ کس وقت سمندر کا پانی اترتا ہے، کس وقت چڑھتا ہے اور کتنی عرصے بعد واپس آتا ہے، زیادہ امکان آبنائے تائیران سے عبور(The Crossing) کرنے  کا ہے، موسیٰؑ نے عقل و دانش، علم و حکمت اور طویل تجربے سے لیس عصا کا بر وقت استعمال کیا اور سمندر کو عبور کرنے کی خوفناک رکاوٹ کو پاش پاش کر دیا۔ 
ادھر فرعون کو تین ہفتے بعد پتہ جلا کہ بنی اسرائیل بھاگ گئے ہیں، منادی کروائی گئی، لشکر اور گھوڑا گاڑیاں اکٹھی کی گئیں۔ جب فرعونی لشکر بنی اسرائیل کی قریب پہنچے تو بنی اسرائیل سمندر کو پار کر ہی چکنے والے تھے۔ انہوں نے فرعونی لشکروں کو دیکھا تو گھبرائے مگر موسیٰؑ نے تسلی دی کہ سمندر کے پانی کے تیزی کے ساتھ واپس آنے کا وقت ہوا ہی جاتا ہے، لہذا  وہ جلدی سے عبور کرلیں اور فرعونی تو تیزی سے واپس آتے ہوئے سمندری پانی میں غرق ہو جائیں گے، اس طرح بنی اسرائیل نے خلیج عقبہ عبور کر لیا اور اگلی منزلوں کی جانب رواں دواں ہو گئے،پیچھے سے آنے والے فرعونی لشکر سمندر میں اتر چکے تھے اور سمندر کے واپس آتے ہوئے پانی کی تیز رفتار بلند و بالا لہروں کی نذر ہو کر غرق ہو گئے۔
<<<گزشتہ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::مزید>>>

تلاش کیجئے