18 جون، 2015

"عجب قوم کی گجب کہانی".!

ہم دہائیوں تک یہ رونا روتے رہے کہ سیاست دان پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد اور جمہوری استحکام کیلئے "افہام و تفہیم" سے کام نہیں لیتے اور یہ بھی ہماری خواہش رہی کہ کاش ہمارے ملک میں بهی کبهی کوئی جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کر سکے؛ پهر جب ایک منتخب صدر نے اس "جواب" کو عملاً پورا کر دکهایا تو الزام لگا دیا کہ "زرداری کی مفاہمت پالیسی صرف اپنا ٹینیور مکمل کرنے کی غرض تک ہی محدود ہے"!
بعد ازاں جب وہی سیاست دان بدترین سیاسی مخالفین کے دور حکومت میں بهی مفاہمت اور قومی مفاد کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے "جمہوری استحکام" کے علاوہ اپنے دور میں شروع کئے گئے گوادر پورٹ اور اکنامک کاریڈور جیسے کارآمد منصوبوں کی تکمیل کا "ضامن" بنا رہا تو ہم نے اسے "نورا کشتی" اور "باری" کے طعنہ زنی کے تیروں کی زد پر رکهے رکها اور ساتھ ہی اسے ملک کی واحد وفاقی پارٹی کے زوال کا ذمہ دار بهی ٹهہراتے رہے ..
اسی طرح ایک عرصہ سے ہمیں ایک ایسے سیاست دان کی تلاش رہی، جو خاکی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اپنے "فرائض منصبی" کی حدود میں رہنے کی چتاونی دے سکے؛ لیکن جب ایک بڑی پارٹی کے قائد اور سابق صدر مُملکت نے ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب میں امن و امان کی بحالی کی سونپی گئی ذمہ داری تک محدود رہنے کی بجائے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خاکیوں کو باقاعدہ "شٹ اپ کال" دی تو سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا میں موجود "شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار"، اداروں کے تقدس کے گهسے پٹے نظریہ کو لے کر، اس کے خلاف غلیظ ترین پروپیگنڈہ مہم کے ساتھ میدان میں نکل آئے ...
"ایں چہ بوالعجبی است"..؟؟

تلاش کیجئے