اسرائیل کی سلطنت کا قیام
طالوت، داؤدؑ اور سلیمانؑ کی مثالی حکومتیں
سلیمانؑ اور ملکہ سبا کے درمیان سمندری تجارت
سلطنت اسرائیل کی تقسیم
زوال اور بخت نصر کی چڑھائی
بابل میں قید، ایرانی بادشاہ ذوالقرنین کا بابل پر قبضہ اور بنی اسرائیل کی رہائی اور فلسطین کو واپسی
بنی اسرائیل طویل جدوجہد کے بعد اپنے آبائی وطن میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے، یہ راتوں رات قائم نہیں ہوئیں، تین راہنماؤں نے سالہا سال صحرا میں تربیت کی، یہ مایہ ناز راہنما شعیبؑ، موسیٰؑ اور ہارونؑ تھے انہوں نے بنی اسرائیل کو علم و دانش، حکمت و شجاعت کے ہتھیاروں سے مسلح کیا، گویا یہ اصول متعین کر دئیے کہ کسی بھی قوم یا گروہ مردم نے آگے بڑھنا ہے، آزادی کی زندگی بسر کرنا ہے تو علم و شجاعت سے مسلح ہوں، کامیابی کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں ہے، اور جب آپ حق کی راہ پر چل پڑتے ہیں تو تمام کائناتی اور ملکوتی قوتیں قدم قدم پر آپ کا ساتھ دیتی ہیں اور آپ کی ہمت و شجاعت میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہیں،علم و آگہی کی نئی نئی راہیں کھل جاتی ہیں، اس طرح تین راہنماؤں کی تیار کردہ قوم کامیابیوں کی راہ پر گامزن ہوئی۔ وہ تینوں اس عظیم کامیابی کو تو دیکھنے سے پہلے رحلت فرما گئے، مگر ایک مضبوط قوم تیار کر گئے سلطنت اسرائیل کے پہلے حکمران طالوت Saul مقرر ہوئے، طالوت کے بعد داؤدؑ King David اور ان کے جانشین سلیمانؑ King Solomon ٹھہرے۔
سلطنت اسرائیل کا علاقہ لیوانت Levant بھی کہلاتا ہے یہ بحرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اس میں آج کے ممالک، فلسطین، لبنان، اسرائیل، اردن اور شام کے علاقے شامل ہیں، شمال میں ترکی کے کچھ علاقے بھی شامل تھے۔ مشرق میں یہ سلطنت دریائے فرات کی مغربی کناروں تک پھیلی ہوئی تھی اور جنوب میں بحرۂ احمر کی خلیج عقبہ تک۔ اسے شمال کی بادشاہت بھی کہتے ہیں یعنی Kingdom of the North. طالوت کے بعد جالوت کے ساتھ لڑائی کے ہیرو داؤدؑ حکمران بنے انہوں نے معاشرتی اور معاشی ناہمواریوں کو دور کرنے کی کوشش کی ان کے زمانے کا واقعہ ہے کہ دو بھائیوں کا مقدمہ پیش ہوا ایک نے شکایت کی کہ یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ۹۹ دمبیاں (بھیڑیں) ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے میرا بھائی اپنی تعداد ۱۰۰ پوری کرنے کی لئے میری ایک دنبی بھی چھیننا چاہتا ہے۔ داؤدؑ سخت پریشان ہوئے کہ ان کی حکومت میں اس قدر نا ہمواری ہے۔انہوں نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا۔
داؤدؑ کے بعد ان کے فرزند ارجمند سلیمانؑ نے حکومت سنبھالی۔انہوں نے ترقی کی نئی نئی راہیں کھولیں معدنی دولت دریافت کی اپنی سلطنت کے ہر کس و ناکس کا خیال رکھا جن کمزوروں اور غریبوں کو محض چیونٹیاں سمجھا جاتا تھا، انہیں تحفظ دیا، عزت دی، سربلند کیا، سلیمانؑ کے اہم کارناموں میں بادبانی کشتیاں اور سمندری تجارت کا فروغ بھی تھا سلطنت اسرائیل کے انتہائی جنوب میں یمن اور ایتھوپیا کے علاقوں ہر ملکہ سبا Queen Sheba کی حکومت تھی جسے Queendom of the South بھی کہا جاتا ہے، دونوں سلطنتوں کے درمیان بحرۂ احمر Red Sea تھا بحرۂ احمر کے دونوں جانب بڑے بڑے صحرا تھے یعنی صحرائے عرب اور صحرائے سوڈان و مصرلہذا دونوں حکومتوں کے درمیان تجارت کا بہتر ذریعہ بحرِ احمر ہی ہو سکتا تھا سلیمانؑ نے خلیج عقبہ پر ایک تاریخی بندرگاہ قائم کی یہ بندر گاہ آجکل اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔ بادبانی کشتیوں کا کمال یہ ہے کہ یہ ہوا کی سمت میں اور مخالف سمت میں آسانی سے چلائی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ سلیمانؑ نے بحرِ احمر کو تجارتی گزرگاہ بنایا جو آج بھی اہم ترین بین الاقوامی تجارتی گزرگاہ ہے شمال سے بادبانی کشتیاں ہوا کے رخ پر چلتی تھیں اور جنوب سے شمال کی طرف جاتے ہوئے ہوا کے مخالف رخ میں زاویے بدل بدل کر یعنی Zig Zag طریقے سے یوں سلیمانؑ کے زمانے میں سلطنت اسرائیل عروج پر تھی۔
سلیمانؑ کے بعد کچھ عرصہ تو حکومت کامیابی سے چلتی رہی مگر بعد میں حکمرانوں کی نا لائقی کی وجہ سے کمزور ہونا شروع ہو گئی، معاشی و معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں گویا اس کو دیمک لگ گئی، پھر دھڑام سے نیچے آ گری سلطنت تقسیم ہو گئ، جنوب کے اہم علاقوں پر یہودہ یا جوڈا Juda نام کی سلطنت قائم ہو گئی اور سلطنت اسرائیل شمال میں سکڑ کر رہ گئی۔ اس طرح یہ عظیم سلطنت کمزور ہوتی گئی۔
بخت نصر کا حملہ
بابل کے حکمران بخت نصر نے فتوحات کا آغاز کیا وہ جوڈا اور اسرائیل کی سلطنتوں کو تاراج کرتا ہوا دونوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، بنی اسرائیل دفاع کرنے میں ناکام ہوئے بخت نصر بنی اسرائیلیوں کو قید کر کے بابل لے آیا، بنی اسرائیل ایک دفعہ پھر بد ترین غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے، یہ قید و غلامی سو سال تک مسلط رہی۔
سلطنت فارس کا بانی سائرس Cyrus the Great یعنی ذوالقرنین یا کوروش کبیر
ذوالقرنین ایک عظیم سلطنت کا بانی ہے اور اس کے بہت کارنامے ہیں، ذوالقرنین کی سلطنت وسیع و عریض تھی، یہ دریائے جہلم کے مغرب سے لے کر یورپ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں ایران، عراق، افغانستان، ترکی، شام، مصر وغیرہ کے تمام علاقے شامل تھے یہ سلطنت فارس Persian Empire کہلاتی تھی ذوالقرنین ایک انسان دوست بادشاہ تھا، اس نے بنی اسرائیل کو بابل سے رہا کر کے واپس فلسطین پہنچا دیا بنی اسرائیلی آج تک ذوالقرنین کے مشکور ہیں۔
بعد میں لیوانت کے علاقوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا اور اس کے بعد مسلمان پورے لیوانت پر حکمران بنے آج بھی لیوانت میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن اسرائیل کا غلبہ ہے، اسے تمام بین الاقوامی تاجر سپورٹ کرتے ہیں اور اسرائیل بین الاقوامی تجارتی راہداری کے تحفظ کا ضامن ہے۔
بنی اسرائیل کی تاریخی داستان میں قوموں کے عروج و زوال کے اصول وضع کئے گئے۔ یہ اصول صرف بنی اسرائیل تک محدود نہیں ہیں بلکہ تمام انسانوں، قوموں، تمدنوں اور تہذیبوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔