"یہ بندے مٹی کے بندے؛ یہ جھنڈے مٹی کے جھنڈے"..
جی ہاں؛ یہی بول ہیں اس "ضرب عضب" کی پہلی سالگرہ پر آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ نئے "قومی ترانہ" کے، جس کے دوران مارے گئے بارہ سو سے زائد دہشت گردوں میں سے کسی ایک کی تصویر بلکہ نام تک میڈیا پر جاری نہ کیا جا سکا ..
ہر خاص و عام کا ایمان تازہ کر دینے والے اس نئے ترانے نے ہمارے دل میں البتہ اکتوبر / نومبر 2006 کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی سپانسر شپ سے، نشتر ہال پشاور میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی زیر صدارت منعقدہ وکلاء کنونشن میں "میریا ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاں راکهاں" کی مشہور عسکری دهن پر گنگنائے گئے عدالتی ترانہ؛ "جسٹس فار آل" کی یاد تازہ کر دی، جس کے فوراً بعد پاکستان اسٹیل کی نج کاری کو لے کر افتخار چوہدری اور جنرل مشرف کے درمیان اس محاذ آرائی کا آغاز ہوا، جو افتخار چوہدری کے خلاف "ارسلان نوازی" پر دائر "جوڈیشل ریفرنس" کے ساتھ معزولی، اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کے "جوڈیشل کمیشن" سے مذکورہ ریفرنس کی شنوائی کے بغیر بحالی اور پهر اختیارات کے ناجائز استعمال پر دوبارہ معزولی کے بعد، پہلے آئی ایس آئی اور پهر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیر نگرانی چلنے والی المشہور "عدلیہ آزادی تحریک" کے مراحل طے کرتی ہوئی ہمارے عدالتی سسٹم کی "مادر پدر آزادی" پر منتج ہوئی اور بونس میں جس کے قوم کو اس "وکلاء گردی" کا "نادر تحفہ" بهی حاصل ہوگیا، جس کا مظاہرہ آئے روز عدالتی ایوانوں کے ساتھ ساتھ تهانہ کچہری سے لے کر اب کوچہ و بازار میں بهی دیکھنے کو مل جاتا ہے ...
قارئین گرامی؛ مذکورہ بالا "عدالتی ترانہ" کے شاہکار نتیجے کے طور پر سابق زرداری دور میں منتخب حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھے رکهنے والے "جوڈیشل مارشل لاء" کے پس منظر میں سامنے آنے والے نئے "عسکری ترانہ" کے پیشگی اثرات اگرچہ عمران خان کے دھرنے کے بعد خاکی شریف کی ہمارے سرخ و سفید شریف پر واضح بالادستی کی شکل میں محسوس کئے جارہے تهے، لیکن اب اس نئے ترانے کی آئندہ قسط اگر
"پاکستانی فوج کی شہرت، خدمت و بے خوف قیادت"
کی دهن میں سامنے آتی ہے تو قارئین، اس کا دوش خدارا ہمارے معصوم شریف جاتی امرا کو بالکل نہ دیا جائے کیونکہ کم از کم اس دفعہ موصوف بوساطت چودھری نثار و شہباز شریف، خاکیوں کے سامنے دامے، درمے، سخنے الغرض ہر طرح سے "کامل وفاداری" کی تصویر بنے بیٹھے ہیں، اور اختیارات کے چٹیل و بے آب و گیاہ میدان میں کچھ اس طرح
"پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں"..