صحرا نوردی اور تین راہنماؤں کی راہنمائی اور تربیت۔
پانی کا مسئلہ اور عصا کا استعمال۔
من و سلوی سے اکتاہٹ اور مصر کی سبزیوں کی یاد۔
سامری کی جادوگری کا شکار ہو جانا۔
بنی اسرائیل کو موسیٰؑ مصر کے غلامانہ ماحول سے کامیابی کے ساتھ نکال کر ایک کھلی اور آزادانہ فضا میں لے آئے یہ مدائین کا علاقہ ہے موسیٰؑ نے یہاں دس سال گزارے ہیں، یہ نیم پہاڑی اور نیم صحرائی بیابان ہے یہاں کسی کی حکمرانی نہیں ہے،حالات دشوار ہیں مگر آزادی میسر ہے یہاں موسیٰؑ و ہارونؑ کے ساتھ ساتھ جہان دیدہ دانشور شعیبؑ بھی راہنمائی کے لئے موجود ہیں، موسیٰؑ یہاں کے چپے چپے سے واقف ہیں۔
اب یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ بنی اسرائیل کی نظریاتی تربیت کا ہے اور ان کے اندر سے صدیوں کی غلامی کے خوف کا قلع قمع کرکے مردانگی کو بحال کرنے کا ہے صدیوں کی غلامی کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ایسے غلاموں کو آزادی تو عزیز ہوتی ہے مگر بغیر جدوجہد کے اور مفت میں۔ اندازہ کیجئے کہ ہمارے ہاں جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بڑے بڑے مخدوموں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں نے جو غلامانہ نظام نافذ کیا ہوا ہے، وہاں غلامی کے اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ اگر دنیا بھر کے تمام انقلابی اور سارے پیغمبر بھی جمع ہو جائیں تو وہ کسی ہاری اور مزارع کو کسی وڈیرے کے ساتھ برابر میں چارپائی پر نہیں بٹھا سکتے کہ وہ اپنے آپ کو وڈیروں سے کمتر سمجھتے ہیں اور غلامی پر رضامند ہوتے ہیں، ہاں البتہ کسی آزاد فضا میں طویل تربیت کے بعد ہی ان کے اندر کا ڈر دور ہو سکتا ہے۔
یہاں صحرا نوردی میں تین مایہ ناز راہنما، شعیبؑ، موسیؑ اور ہارونؑ نے بنی اسرائیل کی تربیت شروع کر دی۔
پانی کی قلت
صحرا میں پانی کی قلت تھی اور محدود تعداد میں پانی کے چشمے موجود تھےجو بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کی چھ لاکھ سے زائد آبادی کے لئے ناکافی تھے، پانی کے حصول پر جھگڑے ہو سکتے تھے، لہذا پانی کی منصوبہ بندی ضروری تھی۔ اس مسئلہ کو موسیٰؑ نے دانش و حکمت کے عصا کا کمال استعمال کرتے ہوئے احسن طریقے سے حل کر دیا۔ وہ اس طرح کہ ہر قبیلے کے لئے الگ الگ چشمے اور گھاٹ مقرر کر دئیے تا کہ تمام قبیلوں کا جھمگھٹا ایک ہی چشمے پر نہ ہو اور تمام قبیلوں اور افراد کو مناسب وقت میں پانی دستیاب ہو جائے۔
من و سلویٰ
صحرا میں مصر کے دریائی علاقے کی طرح زرعی اجناس اور سبزیاں دستیاب نہ تھیں، محدود غذائیں البتہ موجود تھیں، قسم قسم کی انواع نہ تھیں، صحرا میں تو زیادہ تر من و سلوی ہی کی غذا پائی جاتی تھی "من" ایک قسم کا خود رو صحرائی پودہ تھا، جس کو دانے لگتے تھے، جنہیں جمع کر کے اور پیس کر روٹی بنائی جا سکتی تھی اور"سلویٰ" ایک پرندہ تھا جو کہ جوق در جوق اسی "من" کو چگنے کے لئے آتے تھے اور آسانی سے شکار ہو جاتے تھے۔ یوں من و سلویٰ، روٹی اور گوشت پر مبنی غذا ہوا کرتی تھی۔ مگر مذہب کے ٹھیکیداروں نے اسے کوئی انہونی چیز بنا کر رکھ دیا ہے لوگوں نے مٹھائی کی دوکانوں کے نام من و سلوی رکھ لئے ہیں۔
بنی اسرائیل سالہا سال من و سلویٰ کھا کھا کر اکتا گئے اور مصر کی سبزیوں کو شدت سے یاد کرنے لگے۔
قران کریم میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 61 میں بنی اسرائیل پیاز، لہسن، ادرک اور کھیرے وغیرہ کو یاد کر رہے ہیں کہ مصر میں یہ چیزیں موجود تھیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس آزادی سے تو مصر کی غلامی بہتر تھی، وہ یہ بھی گلہ کرنے لگے کہ ان کے ساتھ تو قسم قسم کے کھانوں کا وعدہ کیا گیا تھا مگر یہ کیا؟ کہ ہر روز من و سلویٰ۔ انہیں سمجھایا گیا کہ زرعی علاقے موجود ہیں اور وہاں جابر حکمرانوں نے قبضہ جما رکھا ہے، آپ میدان میں نکلیں، جدوجہد کریں، قبضہ چھڑوائیں اور کھیتی باڑی کریں، آپ دریائے اردن کے کناروں پر واقع اپنے آبائی وطن کنعان یعنی فلسطین کو آزاد کروائیں اور مزے اڑائیں، یہی آپ کے ساتھ وعدہ ہے، اسے Promised Land بھی کہا گیا ہے۔ مگر وہ موسیٰؑ کو کہتے ہیں کہ وہ خود ہی یہ جنگ کریں، کامیابی حاصل کریں اور وہ بعد میں آکر کھیتی باڑی کر لیں گے، گویا ابھی ان کے اندر کا ڈر ختم نہیں ہوا اور نہ ہی تلوار پکڑنے کی ہمت پیدا ہوئی۔
سامری کی جادوگری
موسیٰؑ تیس دنوں کے لئے کوہ طور پر گئے، جن میں دس دنوں کا مزید اضافہ کر لیا۔ وہ بنی اسرائیل کی راہنمائی کے لئے اپنے بھائی ہارونؑ کو اپنا جانشین مقرر کر گئے، مگر ان کے جانے کے بعد سامری نام کے ایک شخص نے بنی اسرائیل کو ایسا ورغلایا کہ گویا موسیٰؑ کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ سامری نے بنی اسرائیل سے کہا کہ ہمارا دیوتا ہمارے سامنے ہونا چاہئے، جس سے ہم اپنی منتیں مرادیں مانگ سکیں اور وہ انہیں پورا کرے اس مقصد کے لئے سامری نے بنی اسرائیل سے زیورات اور کچھ دھاتی سامان جمع کیا، اسے پگھلایا اور ایک دھاتی بچھڑا بنادیا اس میں سے ہوا کے داخل ہونے سے ایک قسم کی آواز بھی پیدا ہوتی تھی۔ سامری نے کہا کہ یہ تمہارا دیوتا ہے اور بولتا بھی ہے، لہذا چڑھاوے چڑھاؤ اور اپنے من کی مرادیں پاؤ، ہارونؑ نے منع کیا مگر بنی اسرائیل نے ان کی ایک نہ سنی، یوں بنی اسرائیل سامری کے پیچھے چل پڑے دراصل غلامی کی ذلت ایسی خوفناک ہوتی ہے کہ انسان تنکوں کا سہارا ڈھونڈنے لگ جاتا ہے اور سامریوں، مندروں، آستانوں اور درگاہوں کے شکنجے میں آسانی سے پھنس جاتا ہے۔ یہ کہانی صرف بنی اسرائیل کی نہیں ہے بلکہ آج بھی سامری سادہ لوح انسانوں کو بیوقوف بنا کر لوٹ رہے ہیں۔
موسیٰؑ چالیس دن بعد واپس لوٹے تو بہت مایوس ہوئے، انہوں نے ہارونؑ سے پوچھا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو سامری کی شعبدہ بازی کے پیچھے چل پڑنے سے کیوں نہ روکا۔ ہارونؑ نے جواب دیا کہ انہوں نے ضرور روکا مگر اگر مزید روکتے تو دو فرقے بن جاتے، ایک فرقہ سامری کا بن جاتا اور ایک ہارونؑ کا اور جب آپ واپس آتے اور میرا ساتھ دیتے تو سامری کہتا کہ بھائی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لہذا فرقہ بندی سے بچنے کے لئے ہارونؑ نے خاموشی اختیار کر لی۔ اب دونوں راہنماؤں نے مل کر حالات کو سنبھالا، سامری کا اثر زائل کرنا شروع کیا اور بنی اسرائیل کی از سر نو تربیت شروع کر دی۔
طویل صحرا نوردی اور نئی نسل کی آزادانہ تربیت
طالوت Saul کی سربراہی اور اعتراضات
طاقت کا سر چشمہ، علم و شجاعت
جالوت Goliath کے ساتھ جنگ
داؤدؑ David کا فتح میں نمایاں کردار
سلطنت اسرائیل کا قیام
بنی اسرائیل کو طویل عرصہ تک صحرا و کوہستان کے ماحول میں دشوار گزار زندگی گزارنا پڑی، چالیس سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ نئی نسل پیدا ہو کر جوان ہو گئی،اس طویل عرصے میں تین راہنماؤں کی تربیت میسر رہی ان تین راہنماؤں، شعیبؑ، موسیٰؑ اور ہارونؑ کی اسی صحرا میں رحلت ہو گئی وہ مکمل کامیابی تو نہ دیکھ سکے مگر بنی اسرائیل کی مکمل تربیت کا کام کامیابی کے ساتھ سر انجام دے گئے۔
اب بنی اسرائیل کی قیادت جوانوں نے سنبھال لی جواں نسل میں فرعونوں کا ڈر نہیں تھا، سوچ تبدیل ہو چکی تھی، غلامی سے آزاد ہو چکی تھی، بہادر بننے کے لئے عقل و خرد کا غلامی سے آزاد ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
آزاد فضا میں طویل زندگی گزارنے کے باوجود فرعون کی غلامی میں صدیاں گزارنے کی وجہ سے بوڑھوں کے اندر سے ڈر ختم نہ ہو سکا مگر جوانوں میں یہ ڈر نہ تھا۔ جواں نسل مکمل طور پر صحرائی بھی تھی اور کوہستانی بھی۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
اقبالؒ کہتے ہیں:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی، یا مرد کوہستانی
اب بنی اسرائیل میں یہ خواہش سر اٹھانے لگی کہ ان کا بھی کوئی ملک ہو، ان کی بھی اپنی حکومت ہو اور اپنا حکمران ہو، اپنا بادشاہ ہو۔
طالوت کی قیادت اور اعتراضات
قدرت کی طرف سے اشارہ دیا گیا کہ بنی اسرائیل کی حکمرانی قائم ہو گی اور طالوت ان کا رہبر و حکمران ہو گا لہذا طالوت کی قیادت میں متحد ہو جائیں اور کنعان و فلسطین کو آزاد کروائیں اور اسرائیل کی سلطنت قائم کریں۔ واضع رہے کہ جالوت نے اس علاقے پر قبضہ کر کے ظالمانہ نظام حکومت قائم کیا ہوا تھا۔ بنی اسرائیل اب اس قدر آزاد اور بے خوف ہو چکے تھے کہ ہر بات کا تنقیدی جائزہ لیتے تھے۔ پہلا اعتراض تو یہ کیا کہ کیا طالوت بادشاہ بننے کا اہل بھی ہے؟ طالوت تو چند مویشیوں کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے پر رہتا ہے جبکہ بادشاہوں کے تو بڑے بڑے محل ہوتے ہیں، اصطبل ہوتے ہیں۔
طاقت کا سر چشمہ اورعلم و شجاعت
قدرت نے جواب دیا کہ محلوں اور اصطبلوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ تو ہوا کے ایک معمولی جھونکے سے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ بتایا گیا کہ اصل پائیدار طاقت علم و جسمانی شجاعت میں ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں طالوت میں بدرجہ اُتم موجود ہیں۔قصۂ طالوت و جالوت کا ذکر قرآن کریم کی سورۂ بقرہ کی آیات 246 سے 252 میں موجود ہے۔
طالوت پر یہ بھی اعتراض کیا گیا کہ ان کا تعلق تو بنیامین کے قبیلے سے ہے جو سب سے چھوٹا اور بنی اسرائیل کا بارھواں قبیلہ ہے۔ اگر بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ بننے جا ہی رہا ہے تو بڑے قبیلوں میں سے ہوتا، سموئیل سے ہوتا، یہودا سے ہوتا۔ یہ کیا کہ بنیامین کے قبیلے سے ہمارا بادشاہ بنے گا؟ انہیں بتایا گیا کہ قبیلوں کے بڑے چھوٹے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اہلیت ہونی چاہئیے اور اہلیت طالوت میں موجود ہے،یوں بالآخر بنی اسرائیل نے طالوت کی قیادت قبول کر لی۔
جالوت کے خلاف جنگ
جالوت ایک ظالم حکمران تھا، وہ کنعان و فلسطین پر ناجائز قابض تھا بنی اسرائیل نے طالوت کے لشکر میں شامل ہو کر جالوت کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا جالوت کی دہشت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے مد مقابل آنے سے ہر کوئی خوفزدہ تھا طالوت نے اعلان کیا کہ جو بھی جالوت کا خاتمہ کرے گا وہ ان کا جانشین ہو گا، بہت سوں کی رال ٹپکی مگر کسی کی ہمت نہ پڑی بالآخر طالوت کے لشکر میں سے ایک شخص داؤد میدان میں آیا، دیوہیکل جالوت کو للکارا۔ اب بنی اسرائیل کی فتح کا دارومدار داؤد اور جالوت کی جنگ کے نتیجے پر تھا۔ داؤد نے نہایت جواں مردی سے مقابلہ کیا اور جالوت کو شکست فاش سے دو چار کر کے بنی اسرائیل کی فتح کے ڈنکے بجا دئے، طالوت کی بادشاہت قائم ہو گئی، اسرائیل کی سلطنت قائم ہو گئی۔ بنی اسرائیل سالہا سال سے مصر سے روانہ ہوتے ہوئے یوسفؑ کی ہڈیاں اور باقیات ساتھ ساتھ لئے پھر رہے تھے، اب وہ یعقوبؑ کے دیس میں پہنچ گئے تھے اور یوسفؑ کی باقیات کو اپنے آبائی وطن میں مستقل دفن کرنے اور ان کا مقبرہ بنانے کا وقت آگیا تھا، اس طرح انہوں نے یوسفؑ کی وصیت کے مطابق فلسطین میں ان کا مقبرہ بنا دیا، طالوت کے بعد داؤدؑ اسرائیل کی سلطنت کے حکمران بنے۔
<<<گزشتہ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::مزید>>>
<<<گزشتہ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::مزید>>>