کائنات ارتقاء کے عمل کے ساتھ اپنی اعلی منازل کی طرف رواں دواں رہتی ہے اور جہاں ایسی رکاوٹ آتی ہے اسے مختلف قدرتی طریقوں سے دور کرکے آگے بڑھ جاتی ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیی وقتی طور پر تعمیر کی بجائے قدرت کو تسخیر بھی کرنا پڑ جاتی ہے۔ البتہ تسخیر کے بعد ارتقاء کا عمل بہتر درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ رکاوٹیں فرعونی، ہامانی اور قارونی قوتیں پیدا کرتی رہتی ہیں اور ایک مایوسی و بے بسی کی صورت پیدا کر دیتی ہیں۔ عوام الناس سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ جکڑے جا چکے ہیں، امید کی کوئی کرن بظاہر نظر نہیں آتی۔ قربانیاں رائیگاں جا رہی ہوتی ہیں، لوگ ہمت ہار جاتے ہیں، کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ ایسے حالات میں قدرت اعلان کرتی ہے کہ کائنات کے ارتقائی عمل کو کوئی نہ روک سکتا ہے اور نہ جکڑ سکتا ہے، مایوسی گناہ ہے۔ ایسی صورت میں ارتقاء کی دائمی معاون ملکوتی قوتوں میں سے کوئی ایک تسخیر کے عمل کے ذریعے رکاوٹوں کو تہس نہس کرکے دوبارہ سے تعمیر کی راہ ہموار کر دیتی ہیں۔ اس طرح ارتقاء جاری و ساری رہتا ہے۔ عام طور پر کم از کم چار ایسے طریقے ہیں جو حالات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل ہیں۔
DEATHموت
DISEASE بیماری
DISASTER قدرتی آفت
DESTRUCTION by invaders تباہی بذریعہ بیرونی حملہ آور
چاروں طریقے انگریزی کے حرف "D" سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ سب طریقے تباہی و تسخیر کے ذریعے رکاوٹوں کو دور کر دیتے ہیں اور انسانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آؤ اپنا کردار ادا کرو، ارتقاء کے عمل کو تیز تر کر دو۔
یوں یہ بظاہر تسخیری قوتیں ایک نعمت بن جاتی ہیں۔ یوں موت ایک نعمت ہے، یہ بڑے بڑے جابروں اور فرعونوں کو چاروں شانے چت کر دیتی ہے، نشان عبرت بنا دیتی ہے۔ غور کیجئے کہ اگر موت نہ ہوتی تو شائد اب تک فرعون ہوتے، Ramses موجود ہوتا، تمام وسائل پر قابض ہوتے ہوتے نسل انسانی کے ہی خاتمے کا سبب بن جاتا۔
بعض اوقات ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو بڑے بڑے حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کو ختم کرکے ترقی و ارتقاء کی نیم نیت راہیں ہموار کر دیتی ہیں۔
اسی طرح قدرتی آفات مثلاً زلزلے، سیلاب، سونامی، سمندری و صحرائی طوفان جکڑ بندیاں توڑ دیتے ہیں۔
بعض اوقات ایک ظالم و جابر کے مقابلے میں کہیں باہر سے دوسرا اس سے بھی بڑا ظالم حملہ آور کی صورت میں آ جاتا ہے اور تمام جابرانہ نظم و نسق تباہ کرکے تعمیر نو اور ارتقاء کی راہ ہموار کرکے چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ عرصہ کچھ طویل بھی ہو جاتا ہے لیکن دوبارہ سے بننے والا نظم و نسق پہلے سے بہت بہتر ہوتا ہے۔
ان چاروں طریقوں کی بے شمار مثالیں تاریخ عالم میں موجود ہیں۔
اس طرح یہ کائنات کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اور جو اس کی تباہی و خاتمے کے فتوے جاری کرتے رہے ہیں وہی مایوس ہوئے ہیں۔
انسان کا کام ارتقاء کے عمل میں حصہ لینا ہے، اسے تیز تر کرنا ہے۔ اس طرح انسان ارتقاء کائنات کے لئے ہے، تسخیر کائنات کے لئے نہیں ہے۔ البتہ شیطانی قوتوں کی تسخیر ضروری ہے، یہ انسان کرے یا اس کی مددگارملکوتی و کائناتی قوتیں کریں جو ہمیشہ حق کا ساتھ دیتی ہیں۔ انسان تو ارتقاء کے لئے ہے۔ کیونکہ تسخیر تو شیطانی قوتیں کرتی ہیں، سکندر یونانی کرتا ہے اور تعمیری کام ذوالقرنین کرتا ہے جو غرباء کو یاجوج و ماجوج کی لوٹ مار سے محفوظ کرنے کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تعمیر کرتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ مایوسی گناہ ہے، یہ کائنات شیطانی قوتوں کے ہاتھوں تباہ ہونے کے لے نہیں بنی۔ یہ کامیابی کے ساتھ آگے کی منزلوں کی جانب رواں دواں رہی ہے اور رہے گی۔