پاکستان بالخصوص پنجاب میں تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ طبقہ جس کے ووٹوں سے پاکستان بنا تھا، مسلم لیگ جیتی تھی، قائداعظم محمد علی جناح ایک نیا ملک تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، اس طبقے کا عمل دخل ختم ہو گیا۔ اس طبقے کو پہلے اس کے ہر دلعزیز عزیز راہنما قائد اعظم سے محروم کیا گیا پھر مارشل لاء کی حکومتوں نے اس کی پارٹی مسلم لیگ پر قبضہ کر لیا۔ اب اس طبقے کی نہ کوئی پارٹی رہی اور نہ کوئی لیڈر۔ پھر 20 سال بعد 1967 میں ایک پارٹی بنی، ایک لیڈر میدان میں آیا، لیڈر نیا تھا، پارٹی کا نام نیا تھا لیکن پروگرام ان کی قبضہ شدہ پارٹی والا تھا۔ نئے لیڈر کا جذبہ و جنون اور خلوص قائداعظم والا تھا۔ واضع رہے کہ یہ طبقہ بہت مردم شناس اور جان نثار ہوتاہے۔ تمام انقلابوں کی پشت پر اسی طبقے کی جاں فشانیاں ہوتی ہیں۔ اب انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا لیڈر دل وجان سے تسلیم کر لیا۔ بھٹو نے مارشل لاء کو ویسے ہی للکارا جیسے قائداعظم برطانوی سامراج اور ہندو کی منافقتوں کوللکارا کرتے تھے۔ اب اس طبقے اور اس کے لیڈر پر وہی پرانے حملے شروع ہو گئے۔ اس طبقے کو جاہل، ان پڑھ اور بے وقوف کہا جانے لگا۔ ان کے لیڈر پر طرح طرح کے فتوے لگنے لگے مگر اب قافلہ رواں دواں ہو گیا، بھٹو جیت گیا۔ پھر بھٹو کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔ بھٹو نے مارشل لاء زدہ پاکستان کو پٹڑی پر چڑھا دیا، غریبوں کو عزّت نفس کا احساس دلایا۔ لیکن کب تک برداشت کیا جاتا۔ ایک اور ماشل لاء لگا دیا گیا اور ایک نئے انداز سے بھٹو کو شہید کر دیاگیا، غریبوں کی امید کی کرنوں کو بجھا دیا گیا، اب جان نثاران بھٹو نے اپنی امیدوں کامحور بھٹو کی ہونہار بیٹی بینظیر کو مان لیا۔ اس جان نثار طبقے نے بھٹو کی بیٹی کا بھرپور ساتھ دیا۔ پھانسیاں قبول کیں، زندانوں کی سختیاں برداشت کیں، 65000 کوڑے کھائے اور آخر کار طویل جدوجہد کے بعد اپنی ہر دالعزیز لیڈر بینظیر کو وزیراعظم بنا دیا۔ مگر ظالموں نے بینظیر کو بھی شہید کر دیا۔
آجکل پھر ایک نئی پارٹی انقلاب کے نعرے لگا رہی ہے، اس پارٹی کو ہر طرح کی مدد حاصل ہے۔ نہ جیل کا ڈر، نہ کسی پھانسی، کوڑے کا ڈر۔ بلکہ دندناتی ہوئی ہر کس و نا کس کو ڈرا رہی ہے۔ یہ سب باتیں تو اپنی جگہ مگر اب وہ طبقہ کہاں غائب ہو گیا جو قائداعظم، بھٹو اور بینظیر کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ ننگے پاؤں والے، پھٹے پرانے کپڑوں والے، بکھرے بالوں والے، ٹوٹے پھوٹے گھروندوں، ٹپکتی چھتوں اورجھونپڑیوں کے مکین، وہ قافلہءِ عشق کے راہی، جانوں پر سے گزر جانے والے، گندی گلیوں کے رہنے والے، وہ مٹی کے مکین، کہاں ہیں؟ کہاں ہیں؟ وہ جو بینظیر کی گاڑی کے ساتھ ساتھ میلوں تک والہانہ طور پر بھاگتے رہتے تھے اور جس راستے سے بینظیر کا قافلہ گزرا ہوتا تھا، میلوں تک دیوانوں اور جنونیوں کے ٹوٹے پھوٹے جوتے بکھرے پڑے ہوتے تھے۔اور اب وہ غریب و بے کس کہاں ہیں؟ ان کی پارٹی کون سی ہے؟ ان کا لیڈر کون ہے؟
چلیں مبارک ہو ان سب کو جو ایسی پارٹی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
لیکن یہ واضع ہے کہ جب کبھی یہ طبقہ جاگ پڑا اور کوئی ان کی امیدوں کا مرکز قرار پا گیا تو پھر ضمیر ارض پہ ذروں کو مشتعل پا کر بلندیوں پہ سیاہ وسفید مل جائیں گے گویا پھر نو 9 نہیں شاید اٹھارہ پارٹیاں گٹھ جوڑ قائم کر لیں۔اور اس گٹھ جوڑ میں عمران و نواز بھی شامل ہوں گے۔