ماضی کی اہم تاریخی بین الاقوامی تجارتی راہداری اور اس کی تبدیلی کے دور رس اثرات
Important historic international trade route of the past and the most lasting effects of its change.
بین الاقوامی تجارتی راہداری ہر زمانے میں بہت اہم ہوا کرتی ہے۔ اقوام عالم میں وہی قوم بڑی قوت بنتی تھی جس کا اس راہداری پر کنٹرول ہوتا۔ ماضی میں دو بڑی سلطنتیں ہو گزری ہیں یعنی سلطنت فارس اور سلطنت روم۔ سلطنت فارس دریائے فرات کے مشرقی علاقوں پر مشتمل تھی اور اس میں عراق، ایران، خلیج کی ریاستیں، عمان، یمن، افغانستان اور بر صغیر کے دریائے جہلم تک کے علاقے شامل تھے۔ سلطنت روم دریائے فرات کے مغربی علاقوں پر مشتمل تھی اور اس میں شام، ترکی کے کچھ علاقے، لیوانت، مصر، شمالی افریقہ اور یورپ کے اکثر علاقے شامل تھے۔ ان سلطنتوں کے بیچ میں صحرائے عرب واقع تھا جو کسی بھی سلطنت کا حصہ نہ تھا۔ یہ علاقہ وسیع و عریض ریگستان ہونے کی وجہ سے کوئی اقتصادی کشش نہ رکھتا تھا لہاذہ نہ تو سلطنت فارس اور نہ ہی سلطنت روم کو ریت میں بلا وجہ گھوڑے دوڑانے کا شوق تھا۔ اس طرح یہ آزاد قبائلی خطہ تھا۔
قدیم تجارتی راہداری
ان دو عظیم سلطنتوں کے قیام سے پہلے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک تجارتی راہداری قائم تھی جسے عام طور پر شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے۔ یہ راہداری چین سے شروع ہو کر یورپ تک جاتی تھی۔ یہ افغانستان اور عراق سے ہوتی ہوئی شام و لیوانت میں داخل ہوتی تھی اور پھر ترکی میں سے ہوتی ہوئی آبنائے باسفورس کو عبور کرتے ہوئے یورپ میں داخل ہو جاتی تھی۔ پھر سکندر اعظم کی اچانک موت نے صورتحال تبدیل کر دی اور بتدریج سکندر اعظم کے مفتوحہ علاقوں پر دو سلطنتیں قائم ہو گئیں یعنی سلطنت فارس اور سلطنت روم۔ ان دو سلطنتوں کی سرحد دریائے فرات تھا۔ ان کی شام پر قبضہ کرنے یا قائم رکھنے کے لئے جنگیں ہوتی تھیں۔ یوں صحرائے شام جو کہ عراق اور شام کے درمیان واقع ہے، میدان جنگ بنا رہتا تھا۔ یہ جنگیں سالہا سال جاری رہتی تھیں۔ کبھی ایک فریق کی محدود فتح اور کبھی دوسرے کی۔ اس طرح تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب صحرائے شام ایک میدان جنگ بنا رہتا تھا اور یہاں سے گزرنا انتہائی غیر محفوظ ہو گیا۔ کبھی وہ ایرانی اور کبھی رومی سپاہیوں کے ہاتھوں لوٹے جاتے تھے۔ اس طرح انہوں نے نئی راہداری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
نئی تجارتی راہداری
اب تاجروں نے مشرق سے آتے ہوئی عراق میں داخل ہونے کے بعد دریائے فرات کو عبور کرنے کے بجائے خلیج فارس کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے اور بحرۂ عرب کے ساتھ چلتے ہوئے اور پھر بحرۂ احمر کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے شام میں داخل ہونے کی راہ اپنائی۔ یہ راہداری طویل ضرور تھی، دشوار گزار بھی تھی مگر محفوظ تھی۔
نئی راہداری کے صحرا نشینوں پر اثرات
نئی راہداری صحرائے عرب میں سے گزرتی تھی۔ اب تاجروں کو صحرا عبور کرتے ہوئے مال برداری کے لئے گھوڑوں، گدھوں کی بجائے اونٹوں کی ضرورت تھی۔ مزید یہ کہ صحرائی طوفانوں سے آشنا صحرائی زندگی کے تجربہ کار لوگوں کی بھی ضرورت تھی۔ اس طرح تاجروں کا انحصار اونٹ والوں اور اونٹوں پر ہو گیا۔ ادھر اونٹ والے صحرا نشینوں کی قسمت جاگ اٹھی اور ان کی آمدنی کئی گنا بڑھ گئی۔ اب یہاں کئی چھوٹی بڑی راہداریاں Routes بن گئیں۔ مثلا" مسقط سے یمن، یمن سے مکّہ اور مکّہ سے شام۔ سالہا سال یہ تجارتی راہداری چلتی رہی۔ البتہ صحرا نشینوں کو یہ فکر لاحق رہتی تھی کہ کہیں راہداری نہ بدل جائے۔ راہداری بدل جانے کا خطرہ شام کا ایرانیوں کے قبضہ میں جانے کا ہوتا تھا یعنی رومیوں کی شکست۔ کیونکہ اس صورت میں مشرق و مغرب کے بیچ میں پرانا مختصر روٹ بحال ہو سکتا تھا۔ اس طرح عربوں کی ہمدردیاں رومیوں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ واضع رہے کہ صحرائے عرب کے لوگ تاجر نہ تھے بلکہ مال بردار Transporters تھے۔
یاد رکھیے اسلامی تاریخ اور اسلامیات کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ مکّہ کے فلاں سردار کی اتنے اونٹوں کی تجارت تھی اور فلاں کی اتنے اونٹوں کی کہیں تجارتی اشیاء کا ذکر نہیں ہوتا، اس طرح اونٹوں کی زیادہ تعداد امارت و رتبے کا معیار ہوتا تھا۔
نئی تجارتی راہداری نے عربوں کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔
قرآن کریم کی سورہ روم کا اہم نکتہ
جب اسلام کا آغاز ہوا، اس وقت بھی ایرانیوں اور رومیوں کے درمیان جنگیں جاری تھیں۔ یہ اسلامی تحریک کا ابتدائی زمانہ تھا اور ابھی چند لوگوں نے ہی اسلام قبول کیا تھا جن میں زیادہ تر غلام تھے۔ اس اثناء میں سورہ روم نازل ہوئی۔ رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان جنگ جاری تھی کہ رومی مغلوب ہو گئے۔ مکّہ کے لوگوں کو فکر لاحق ہوئی مبادا تجارتی راہداری تبدیل نہ ہو جائے۔ سورہ روم میں بتایا گیا کہ اب سے تین آور نو سالوں کے درمیان ایک اور جنگ میں رومی فتح یاب ہو جائیں گے۔ یہاں تک تو کفار مکّہ کے لئے اچھی خبر تھی۔ مگر اسی سورہ میں مزید بتایا گیا کہ اس کے بعد مسلمانوں کے لئے خوشخبری ہے کہ وہ فتح یاب ہوں گے۔ گویا مسلمانوں کو اس سے کیا غرض ایرانی جیتیں یا رومی۔ ان کے لئے خوشخبری تو ان کی اپنی فتح ہو گی۔ اس پر مکّہ کے کفار مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے کہ محمد ﷺ کن کو فتح کی خوشخبری سنا رہے ہیں، بلالؓ کو، زیدؓ کو، عمارؓ کو۔ان لوگوں کے تن پر تو کپڑے تک پورے نہیں، پاؤں سے ننگے ہیں۔ ان میں سے نہ کسی نے اصفہان دیکھا ہے، نہ روم۔ بھلا یہ سلطنت فارس و روم فتح کریں گے۔ تاریخ نے دیکھا کہ اس کے چھ سال بعد رومی فتح یاب ہو گئے۔ آیت کی صداقت کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا کہ وہ بھی یقیناً فتح یاب ہوں گے۔ اور چشم فلک نے دیکھا کہ وہی مذاق اڑانے والے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور سورہ روم کے نزول کے بیس سال بعد انہی مسلمانوں کے ہاتھوں سلطنت فارس فتح ہوئی اور سلطنت روم کی فتح کا بھی آغاز ہو گیا اور اس کے بھی بہت سے علاقے فتح ہو گئے جن میں شام اورمصر شامل ہیں، یوں تجارتی راہداری کی تبدیلی کے دور رس نتائج سامنے آئے۔