24 جون، 2015

اہم ترین جدید بین الاقوامی تجارتی راہداری اور اس پر واقع ملکوں پر اثرات

بحرالکاہل سے بحرۂ عرب تک براستہ بحرۂ روم اور بحرۂ احمر
From The Atlantic Ocean to The Arabian Sea VIA The Mediterranean Sea and The Red Sea.
صنعتی انقلاب کے بعد ایک لحاظ سے دنیا ہی بدل گئی۔ اب بین الاقوامی تجارت کے لئے بحری راہداریاں انتہائی اہمیت کی حامل ہو گئی ہیں۔ اب تجارت کے لئے اونٹوں اور گھوڑوں، گدھوں کی جگہ بڑے بڑے بحری جہازوں نے لے لی۔ بہت سی بحری راہداریاں قائم ہو گئیں۔ ان میں سے ایک اہم ترین بحری راہداری بحرالکاہل سے بحرۂ عرب تک واقع ہے۔ تمام صنعتی ممالک کے مال بردار بحری جہاز اس راہداری سے گزرتے ہیں۔ یہ راہداری دو اہم سمندروں، بحرۂ روم اور بحرۂ احمر میں سے گزرتی ہے۔ صنعتی ممالک نے مل کر اس کی حفاظت اور اس پر کنٹرول کا مکمل بندوبست کیا ہے۔ 
بحرۂ روم تین براعظموں کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں یورپ، جنوب میں افریقہ اور مشرق میں ایشیا واقع ہے جبکہ مغرب میں بحرالکاہل ہے۔
آئیے اس راہداری کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس کی حفاظت کی انتظامات اور اس پر واقع ملکوں پر اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس انتظام میں تمام صنعتی ممالک شامل ہیں۔ ان میں یورپی ممالک اور بالخصوص امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔
یہ راہداری یورپ کے مغرب میں برطانیہ، فرانس، پرتگال اور سپین کے ساحلوں سے ہوتی ہوئی بحرالکاہل میں سے آبنائے جبرالٹر سے گزرتی ہوئی بحرۂ روم میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں تک تو یہ صنعتی ممالک کے بیچ میں سے گزرتی ہے اور مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اب بحرۂ روم کے شمال میں تو صنعتی ممالک ہی ہیں مگر جنوب میں شمالی افریقہ کے مسلمان ممالک واقع ہیں۔ ان ممالک میں مغرب سے مشرق کی طرف مراکش، الجیریا، تیونس، لیبیا اور مصر شامل ہیں۔ شمال میں ان کے بالمقابل یورپی ممالک میں پرتگال، سپین، فرانس، اٹلی اور یونان شامل ہیں۔ بحرۂ روم صنعتی تاجروں نے دو پہریداروں Watchdogs کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ مغرب میں آبنائے جبرالٹر کے دھانے پر یعنی جہاں تجارتی بحری بیڑے بحر الکاہل سے بحرۂ روم میں داخل ہوتے ہیں، وہاں جبرالٹر کے مقام پر برطانیہ کی بندرگاہ ہے۔ یہ ویسے تو سپین کا حصہ ہونا چاہئے مگر نہایت اہم مقام پر دو مربع میل کا علاقہ برطانیہ کے انتظام میں ہے۔ یہاں برطانیہ کی شاہی نیوی تمام قسم کے جدید اسلحہ اور جنگی لڑاکا طیاروں اور مسلح بحری جہازوں سے لیس موجود ہے۔ یہ بندوبست مراکش اور الجیریا کے لئے ہے۔ جبرالٹر کے مقام ایک مشہور چٹان بھی موجود ہے جو سیاحوں کے لئے پر کشش ہے۔ آگے چلتے ہوئے تیونس اور لیبیا کے بالمقابل اٹلی اور فرانس ہیں۔ مصر کے بالمقابل یونان ہے اور پھر بحرۂ روم کے مشرق میں ایک اہم پہریدار Watchdog اسرائیل کی صورت موجود ہے۔ اسرائیل کو خاص طور پر بحری تجارت کی حفاظت کے لئے قائم کیا گیا اور اسے تمام صنعتی ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل کو قائم کرنے کے لئے مذہب کا بہانہ بھی ڈھونڈا گیا۔ اسرائیل کی قیام سے بیشتر مصر اور شام دو طاقتور ممالک موجود تھے۔ اسرائیل کو جدید اسلحہ سے لیس کیا گیا۔ اس طرح اسے متعدد مسلمان ملکوں کے بیچ میں ایک طاقتور پہریدار کی طور پر قائم کر دیا گیا۔ مسلسل جنگوں کے ذریعے مسلمان ملکوں کی جنگی اور دفاعی صلاحیت کو اسرائیل نے جدید اسلحہ کے استعمال سے تباہ کر دیا اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا گیا۔ طرح طرح کے معاہدوں پر مجبور کر دیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ ان ملکوں بالخصوص اردن اور مصر کی معیشت کا انحصار ہی امریکی امداد پر ہے۔ لیبیا کی معیشت وافر تیل کی موجودگی کی وجہ سے مضبوط بھی تھی اور کرنل قذافی کی قیادت میں ہتھیار ڈالنے پر تیار بھی نہیں ہوتا تھا۔ اسے مختلف حیلوں بہانوں سے فرانس اور اٹلی کے جنگی طیاروں کے ذریعے تباہ کر دیا گیا۔ کرنل قذافی کو قتل کر دیا گیا اور لیبیا کی جانب سے مزاحمت ختم کرہو گئی۔ 
بحری تجارتی راہداری اب بحرۂ روم سے بذریعہ نہر سویز بحرۂ احمرمیں داخل ہوتی ہے۔ نہر سویز مصر میں واقع ہے۔ یہ نہر دو سمندروں، بحرۂ روم اور بحرۂ احمر، کو آپس میں ملانے کے لئے کھودی گئی۔ ان سمندروں کو آپس میں ملانے کی وجہ سے یورپ سے ایشیا تک کا سمندری سفر بہت حد تک کم ہو گیا۔ نہر سویز سے پہلے یورپ سے ایشیا آنے کے لئے پورے بر اعظم افریقہ کے گرد چکر کاٹنا پڑتا تھا یعنی افریقہ کے مغربی اور جنوبی ساحلوں سے ہوتے ہوئے ایشیا پہنچا جاتا تھا۔ اس طرح ایک تو وقت بہت ضائع ہوتا تھا اور دوسرا ایندھن کی کھپت بہت زیادہ تھی۔ نہر سویز کی وجہ سے وقت اور ایندھن کی بے پناہ بچت ہو گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل بحرۂ روم اور بحرۂ احمر دونوں پر پہریدار ہے۔ بحرۂ احمر کی خلیج عقبہ کے اوپر اسرائیل کی نہایت اہم بندرگاہ موجود ہے۔
واضع رہے کہ یہ وہی بندرگاہ ہے جو حضرت سلیمانؑ نے قائم کی تھی اور جہاں سے یمن و ایتھوپیا کی ملکہ سبا کے ساتھ بحری تجارت ہوتی تھی۔
اس بندرگاہ کی وجہ سے اردن، مصر اور سعودی عرب اسرائیل کی نظر میں رہتے ہیں۔ سعودی عرب ویسے بھی امریکہ کا اتحادی ہے۔ اس طرح بحرۂ احمر کی راہداری مشرق میں یمن تک کنٹرول میں ہے اور محفوظ ہے۔ 
اب ہم بحرۂ احمر کے مغرب میں واقع افریقی ملکوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس جانب مصر، سوڈان اور ایتھوپیا اہم ممالک شامل تھے۔ مصر کا ذکر ہو چکا۔ سوڈان اور ایتھوپیا کے ٹکڑے کرنے کے لئے سیاسی تحریکیں چلوائی گئیں۔ لوگوں کو قبیلوں اور مذہبوں کی بنیاد پر لڑوایا گیا۔ ملا اور پادری استعمال ہوئے۔ سب سے پہلے ایتھوپیا کو لیتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ملک تھا، اس کی تہذیب بہت پرانی تھی، معیشت مضبوط تھی۔ سب سے پہلے ایتھوپیا سے صومالیہ کو الگ کر دیا گیا۔ پھر بحرۂ احمر کے ساحلی علاقے الگ کرکے اریٹیریا اور جبوتی کو ممالک کا درجہ دے دیا گیا۔ اب ایتھوپیا کی سرحد کسی بھی سمندر سے محروم ہے گویا ایک Land Locked ملک بن کے رہ گیا۔ اریٹیریا ایک طویل پٹی کی صورت میں بحرۂ احمر پر واقع ہے۔ یہ اب عیسائی اکثریت کا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں چھوٹا سا ملک جبوتی ہے۔ جبوتی مسلم اکثریت کا ملک ہے۔ یہاں 94 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہ چھوٹا سا کمزور ملک ہے لیکن آبنائے باب المندب پر یمن کے بالمقابل واقع ہے۔ جبوتی اریٹیریا میں شامل ہوسکتا تھا مگر شاید اس لئے الگ ملک بنایا گیا کہ اریٹیریا کی آبادی میں مسلمان اکثریت میں نہ ہو جائیں۔
سوڈان کے دو ملک بنائے جا چکے ہیں۔ جنوبی سوڈان عیسائی اکثریت والا ملک بن چکا ہے۔ باقی ماندہ سوڈان میں مسلم اکثریت ہے مگر اس میں مزید دو علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں۔ شائد مزید تقسیم درکار ہو۔ 
اب صومالیہ اور یمن کا ذکر کرتے ہیں۔ صومالیہ کا ساحل بہت طویل ہے۔ یہ جنوب میں بحرۂ عرب کے ساتھ اور مشرق میں بحرۂ احمر کے ساتھ واقع ہے۔ صومالیہ بحرۂ احمر کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کے بالمقابل مشرق میں یمن ہے۔ یمن آبنائے باب المندب سے خلیج عدن اور بحرۂ عرب تک موجود ہے۔ یہ دونوں غریب ملک ہیں مگر ان کا محل وقوع بہت اہم ہے۔ ان دونوں ملکوں کے بیچ میں بین الاقوامی تجارتی راہداری غیر محفوظ ہے۔ امکان ہے کہ ان کے دو دو یا تین تین ملک بنا دیئے جائیں تا کہ راہداری محفوظ ہو جائے۔ شائد اسی مقصد کے لئے داعش اور القاعدہ وہاں پہنچ چکی ہیں۔
اس دنیا میں کمزوروں کی کوئی زندگی نہیں ہے۔ اور پھر اگر کمزور ہیں تو طاقتوروں کے راستے میں واقع کیوں ہیں؟ پرکشش وسائل کے مالک کیوں ہیں؟ ان سب علاقوں میں مسلمان ملک ہیں، آپس میں اتحاد کیوں نہیں کرتے؟ مسلمانوں کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ اگر متحد ہو کراسرائیل کی سرحد پر جا کر صرف تُھوک دیں تو اسرائیل اس سیلاب میں بہہ کر بحرۂ روم میں گر کر غرق ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس میں اتحاد کریں اور علم و ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے طاقت حاصل کریں۔
تجارتی راہداری ہر زمانے بہت اہم ہوتی ہے۔ طاقتوروں اور سامراجیوں کے سینے میں نہ تو دل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اخلاقیات۔ انہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ اگر اپنے مفاد کے راستے میں پوری کی پوری آبادی کا قتل عام کرنا پڑے تو ذرا بھر دریغ نہیں کرتے۔ لہذا اگر عزت و احترام کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو طاقت حاصل کرو۔

تلاش کیجئے