اسلام نے سیاسی یا حکومتی نظام وضع کرنے کے اصولوں کا تعین کیا ہے اور کوئی مخصوص سیاسی نظام نہیں دیا۔ البتہ سیاسی یا حکومتی نظام ان سنہری اصولوں کے تحت وضع کیا جا سکتا ہے، نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قرآن حکیم نے حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ، ذوالقرنین کی حکومتوں کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ یہ قبائلی زمانے کی بادشاہتیں تھیں اور اچھے اصولوں پر قائم تھیں اور جب بعد میں آنے والے ان اصولوں کو قائم نہ رکھ سکے تو یہ حکومتیں ختم ہو گئیں۔ اس طرح اصولوں کو اہمیت حاصل ہے۔
اصول مندرجہ ذیل ہیں:
1. صداقت
2. امانت یا ایمانداری
3. ایسا معاشی نظام جو ہر بشر کو آبرومندانہ طریقے سے پال سکے۔
4. ایسا نظام جس میں حکمران ہر ایک کو جوابدہ ہو۔ اور اس سے کسی کو خوف و خطر نہ ہو۔
5. ایسا نظام جو پُرامن انتقالِ اقتدار کی ضمانت دے۔
(بد قسمتی سے مسلمانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جہاں حکمرانوں کی تبدیلی جنگ و جدل اور قتل و غارت کے ذریعے ہی ہوتی رہی یعنی جس کی لاٹھی، اس کی بھینس۔ حتیٰ کہ چار میں سے تین خلفائے راشدین کو بھی شہید کیا گیا)۔
6. مساویانہ نظام عدل ییند سب کے لئے یکساں قوانین اور یکساں عدل۔
ان اصولوں اور مقاصد کو قرآن کی زبان میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
A. برّب الناس
ایسا نظام میشت جو تمام انسانوں کو پال سکے یعنی صحیح معنوں میں "عوامی معیشت"
B. مالک النّاس
ایسا نظام حکومت جس کے مالک تمام انسان ہوں یعنی خدائی قوانین کے تحت تمام انسانوں کی شرکت۔ دوسرے لفظوں میں صحیح معنو ں میں "عوامی حکومت"
C. الٰہ النّاس
ایسا نظام عدل جس میں بلا تفریق قوانین ہوں۔ "یکساں عوامی عدل"
مندرجہ بالا اصولوں کی بنیاد پر سیاسی نظام وضع ہونا چاہیے۔ بد قسمتی سے مسلمان اب تک کوئی پائیدار نظام وضع نہیں کر سکے۔ ہر طرف خوف مسلط ہے۔ ایک اہم ملک میں بادشاہت ہے تو دوسرے اہم ملک میں اسلام کی من پسند توجیحات کے ساتھ مذہبی آمریت مسلط ہے۔
قرآن کریم بتاتا ہے کہ تین شعبے ایسے ہیں جو انسانیت کے دشمن ہیں اور ان کا آپس میں گٹھ جوڑ رہتا ہے۔ ان کے گٹھ جوڑ کو تین مختلف ترتیبوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک لیڈر ہو جاتا ہے اور دوسرے دونوں اس کے ساتھ ساتھ۔ مثلاً
1. فرعون، ہامان، قارون
2. ہامان، فرعون، قارون
3. قارون، فرعون، ہامان
یہ تینوں افراد کے نام نہیں، شعبے ہیں۔ مختلف زمانوں اور سماجوں میں ان شعبووں کے نام مختلف ہو سکتے ہیں مثلاً سامراجیت، شہنشاہیت، آمریت اور ملائیت، پنڈت، پادری وغیرہ اور ملٹی نیشنل کمپنیاں، سرمایہ داریت وغیرہ۔
یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جمہوریت ہے۔ ان میں بھی مندرجہ بالا اسلامی اصول تو نافذ نہیں ہیں اور بہت سی خامیاں موجود ہیں مگر دوسرے نظاموں کی نسبت کچھ بہتری ہے، پُرامن انتقال اقتدار، امن وعدل اور سماجی بہبود کی حد تک باقی دنیا بشمول اسلامی دنیا سے صورتحال بہت بہتر ہے۔ اگرچہ یہاں جمہوریت مکمل آزاد نہیں ہے اور اس میں موجود خامیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ مسلمانوں کے سابقہ معاشروں سے سیکھ کر نسبتاً بہتر نظام مرتب کر لے ہیں۔
اقبالؒ کہتے ہیں:
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
اس لئے اہل اسلام کو چاہیے کہ اپنے معاشروں کو مثالی بنا کر یورپ کو جواب دیں۔ محض طعنوں اور بڑھکوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔علم مومن کی میراث ہے۔ اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کریں کیونکہ علم ہی اصل طاقت ہے۔
Knowledge is power and physical courage to stand for it.
فی العلم والجسم (2:246) Al-Quran