ہڈ بیتی اپنے آپ پر، اپنی ذات پر،اپنے جسم و جان پر گزرنے والے واقعات کا نام ہے۔ اپنے مشاہدات و تجربات کا نام ہے۔ اپنے حواص خمسہ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کا نام ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہوئی، اپنے کانوں سے سنی ہوئی، اپنے ہاتھوں سے چھوئی ہوئی، اپنی ناک سے سونگھی ہوئی اور اپنی زبان سے چکھی ہوئی معلومات کا نام ہے۔ خود کیے ہوئے، خود سے برداشت کیے ہوئے حوادث کا نام ہے۔ ہڈ بیتی سے حاصل ہونے والا علم شک و شبہ سے بالاتر اور بہت زیادہ قابل اعتماد ہوتا ہے، ہڈ بیتیاں گہرا علم عطا کرتی ہیں، شعور کی بلندیاں عطا کرتی ہیں۔ ہڈ بیتی کے ذریعے حاصل ہونے والے علم میں پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہوتا، کسی یونیورسٹی یا کسی اعلی درسگاہ کی سند یا ڈگری ضروری نہیں ہوتی۔
جگ بیتی وہ معلومات ہیں جو دوسروں کے مشاہدات اور واقعات پرمبنی ہوتی ہیں۔ دوسروں سے سنی ہوئی یا دوسروں کی قلم بند کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس طرح جگ بیتی سے حاصل ہونے والا علم تب تک گہرا نہیں ہوتا جب تک اسے اپنے حواص خمصہ کی مدد سے پرکھ نہ لیا جائے۔ محض جگ بیتی سے شعور کی پختگی حاصل نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہڈ بیتی والے زیادہ باشعور ہوتے ہیں اور محض جگ بیتی والے دانشوروں اور پڑھے لکھے ہونے کے دعویداروں کے شعور کی سطح ہڈ بیتی والے ان پڑھوں سے عمومی طور پر پست ہی نہیں بلکہ پست ترین ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے اپنے جگ بیتی کے علم کو ہڈ بیتی سے پرکھو، ہڈ بیتی والوں سے سیکھو، ان کی قدر کرو اور اپنے شعور کی سطحوں کو بلند کرو۔
حصول علم کا آغاز اپنے مشاہدات کے اظہار سے ہوتا ہے۔
Learning starts with expression of observations.
آجکل Copying اور Pasting عام ہے، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، نہ اعتماد Confidence کی بنیاد پڑتی ہے اور نہ پختگی Maturity آتی ہے۔ حصول تعلیم کا مقصد شعور کی بلندی ہونا چاہیے۔ ہمارا ابتدائی نظام تعلیم رٹہ و حفظ Memory اور Dictation پر مبنی ہے جو کے تخلیق و تحقیق Creativity and Research کے عمل کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے۔ انسان پڑھے لکھے ہونے کے زعم میں مبتلا تو ہو جاتا ہے لیکن حقیقت میں جاہل مطلق بن جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حصول علم کی بنیاد اپنے مشاہدات اور ہڈ بیتیوں پر رکھی جائے اور بحث و مباحثہ Discussion and Debate کے ذریعے شعور کی بلندیوں کی جانب گامزن کیا جائے۔