بنی اسرائیل حضرت یوسفؑ کے دور اقتدار میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ کنعان چھوڑ کر مصر میں آ کر آباد ہوئے بنی اسرائیل عبرانی تھے، وہ مصر کے مقامی باشندے نہ تھے انہیں دریائے نیل اور مصری دارالخلافہ میمفِس کے مشرق میں گھوشن کے مقام پر آباد کیا گیا، حضرت یوسفؑ کی رحلت کے بعد مصر کے حکمران فرعونوں نے بتدریج بنی اسرائیلیوں کو دوسرے عبرانیوں اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی طرح غلام بنا لیا مصر کے غلامانہ نظام کو سمجھنے کے لئے مصر اور اس کے گردونواح کے جغرافیہ پر تفصیلی روشنی ڈالنا ضروری ہے۔
مصری تہذیب قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے جب انسانوں نے خانہ بدوشی کی زندگی ترک کرکے کھیتی باڑی شروع کی تو مستقل سکونتوں کا قیام بھی عمل میں آیا کھیتی باڑی اور مستقل سکونتوں کے لئے کم از کم تین خوبیوں والے علاقے موزوں تھے یہ تین خوبیاں مندرجہ ذیل ہیں:
مصر کی سر زمین مندرجہ بالا تینوں خوبیوں سے مالامال تھی اور مستقل سکونت کے لئے بہترین انتخاب تھا یہاں دریائے نیل کی صورت میں پانی موجود تھا، دریائے نیل کے کناروں پر کھیتی باڑی کے لئے زرخیز زمین بھی تھی آب و ہوا نہایت موزوں تھی دریائے نیل کا بہاؤ جنوب سے شمال کی طرف تھا اس کی ایک شاخ ایتھوپیا کے پہاڑوں سے شروع ہوتی ہے اور دوسری یوگنڈا سے ان کو بالترتیب نیلا نیل Blue Nile اور سفید نیل White Nile کہا جاتا ہے یہ دونوں شاخیں سوڈان کے موجودہ دارالخلافہ خرطوم میں باہم مل جاتی ہیں اور وہاں مصر میں دریائے نیل ایک ہی شاخ کے ساتھ داخل ہوتا ہے شمال کی طرف طویل فاصلہ طے کرتے ہوئے بحرۂ روم Mediterranean Sea میں داخل ہو جاتا ہے یہاں ہواؤں کا رخ Wind Direction دریا کے بہاؤ کے مخالف سمت میں ہے جو آب و ہوا کو نہایت معتدل اور خوشگوار بنا دیتا ہے زرخیز زمین دریائے نیل کے دونوں کناروں کے ساتھ ایک طویل پٹی کی صورت میں ہے اس زرخیز پٹی کی چوڑائی گیارہ میل سے اکتیس میل تک ہے جنوب میں چوڑائی کم اور شمال میں زیادہ ہے مصری تہذیب کے قدیم و جدید شہر زیادہ تر شمال میں ہی واقع ہیں فرعونوں کے زمانے کا دارالخلافہ میمفِس اور موجودہ قاہرہ اور اسکندریہ شمال کی جانب ہی واقع ہیں اس سرزمین اور تہذیب کو دریائے نیل کا تحفہ Gift of the Nile اور فرعونوں کی سرزمین Land of Pharaohs بھی کہا جاتا ہے۔
دریائے نیل کی مرکزی پٹی کے چاروں طرف ایسی جغرافیائی رکاوٹیں ہیں جو انسانی تہذیب و تمدن کیلئے موزوں نہیں ہیں اس زرخیز پٹی کے مغرب میں سینکڑوں میلوں تک پھیلا ہوا صحرا ہے جسے صحارہ Sahara Desert OR Libyan Desert کہا جاتا ہے اس وسیع و عریض صحرا میں نہ پانی اور نہ خوراک، اوپر سے ریت کی خوفناک طوفان اس طرح یہاں انسانی تمدن ممکن نہیں ہے مشرق میں انسانی تہذیب کی توسیع کی راہ میں تین رکاوٹیں یکے بعد دیگرے پائی جاتی ہیں یہ تینوں رکاوٹیں دریائے نیل کے متوازی چلتی ہیں پہلے صحرا ہے جسے Eastern Desert of Egypt مصر کا مشرقی صحرا کہا جاتا ہے اس کے بعد خشک، بنجر اور بے آب و گیاہ پہاڑی سلسلہ ہے اس کے بعد بحرۂ احمر Red Sea ہے واضع رہے کہ بحرۂ احمر کے دونوں جانب یعنی مشرق و مغرب میں مسلسل خشک پہاڑی سلسلے ہیں شمال میں بحرۂ روم وادئ مصر کو گھیرے ہؤے ہے جبکہ جنوب میں بھی نیم پہاڑی اور نیم صحرائی علاقہ ہے اس طرح چاروں طرف سے غیر تمدنی صورتحال میں گھری ہوئی پر کشش وادئ مصر ہے جہاں پانی اور خوراک موجود ہے گویا مصر بھوکے اور پیاسے پنچھیوں کا ایک ایسا پنجرہ ہے جہاں پنچھی خوشی خوشی آتے ہیں اور قید ہو جاتے ہیں۔
مصر کے فرعون باہر سے آنے والوں اور مصر کے کمزور طبقوں کو آسانی سے غلام بنا لیتے تھے شمال مشرق سے کنعان، مداُین وغیرہ سے آئے ہوئے لوگ غلام بنا لئے جاتے تھے۔
بنی اسرائیلی بھی غلام بنا لئے گئے ان غلاموں سے بڑے بڑے پتھر اٹھوائے جاتے تھے، فرعونوں کے اہرام بنوائے جاتے تھے، کھیتوں میں مزدوری کا کام لیا جاتا تھا اس کے علاوہ ان کی بدترین توہین کی جاتی تھی، عزت نفس اور مردانگی کو کچل دیا جاتا تھا ان کی رگ رگ میں کمزوری اور نسوانیت کوٹ کوٹ کر بھر دی جاتی تھی آزادی کا کوئی راستہ نہ تھا، ہر طرف قدرتی رکاوٹیں تھیں، فرعونوں کا سخت پہرہ تھا، خاندان کے خاندان غلام تھے، بیوی بچوں سمیت کہیں بھاگ جانا ممکن نہ تھا یوں بنی اسرائیل کو نسل در نسل ذلت و رسوائی کا عذاب سہنا پڑ رہا تھا وہ فرعونوں کو ہی اپنا مائی باپ سمجھنے لگے ان کا فرعونوں کے ساتھ کسی قسم کا میل جول نہ تھا انہیں قطعاً علم نہ ہوتا تھا کہ فرعونوں کی سیاست کیا ہے اور وہ منصوبہ بندی کیسے کرتے ہیں ہر طرف مایوسی ہی مایوسی تھی یوں جلیل القدر پیغمبروں، ابراہیمؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور یوسفؑ کی ذریت یعنی بنی اسرائیل کو ذلت آمیز غلامی کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد علت و معلول کے تحت قدرت نے ان کی آزادی کی راہیں ہموار کیں۔
بنی اسرائیل حضرت یوسفؑ کے دور اقتدار میں 1806 ق-م میں اپنے والد گرامی قدر حضرت یعقوبؑ کے ہمراہ اپنا آبائی وطن کنعان چھوڑ کر مصر میں آباد ہو گئے وہ شان و شوکت سے مصر میں رہنے لگے سولہ سال بعد 1859 ق-م حضرت یعقوبؑ شدید بیماری کا شکار ہو کر رحلت فرما گئے انہیں عارضی طور پر مصر میں سپرد خاک کیا گیا سترہ سال بعد حضرت یوسفؑ نے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کی باقیات کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ اپنی والدہ کے ساتھ کنعان میں لے جا کر دفن کردیا زمانہ یوں ہی چلتا رہا 1875 ق-م میں حضرت یوسفؑ 110 سال کی عمر پا کر رحلت فرما گئے حضرت یوسفؑ کو ان کی وصیت کے مطابق عارضی طور پر مصر میں سپرد خاک کر دیا گیا ان کی وصیت تھی کہ جب بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کریں تو ان کی باقیات کو ساتھ لے جائیں اور کنعان میں لے جا کر دفن کر دیں۔
مصر کے محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے یوسفؑ کا مقبرہ دریافت کر لیا ہے اور اس کی تصویریں انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
بنی اسرائیل بعد میں موسیؑ کی قیادت میں ہجرت Exodus کے وقت یوسفؑ کی باقیات ساتھ ساتھ لئے پھرے اور بالآخر فلسطین (سابق کنعان) پہنچ کر دفن کر دیں چنانچہ ان کا ایک مقبرہ فلسطین میں بھی ہے جہاں یہودی بڑی عقیدت کے ساتھ زیارت کرنے کو آتے ہیں۔
مصر میں بادشاہ بدلتے گئے حضرت یوسفؑ کی رحلت کے 75 سال بعد تک بنی اسرائیل کی کم و بیش وہی شان و شوکت رہی پھر جو نئے بادشاہ (فرعون) آئے تو حالات نے پلٹا کھایا نئے فرعون کے نزدیک حضرت یوسفؑ کی کوئی اہمیت نہ تھی اور نہ ہی بنی اسرائیل کی کوئی قدر و قیمت تب تک مصر میں بنی اسرائیل کی آبادی بہت بڑھ چکی تھی نئے فرعون کو خطرہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں یہ عبرانی مصر کے بیرونی دشمنوں کے ساتھ مل کر مصر پر قبضہ ہی نہ کر لیں انہوں نے عبرانیوں کی آبادی کم کرنے کی کچھ ناکام کوششیں بھی کیں اور بنی اسرائیل کا تمام عیش و آرام چھین کر ان پر بد ترین غلامی نافذ کر دی انہیں اس قابل نہ چھوڑا کہ کبھی بغاوت یا آزادی کا خواب بھی دیکھنے کی جراء ت کر سکیں یوں بنی اسرائیلیوں کی نس نس میں غلامی رچ بس گئی صدیاں گزر گئیں غلامی کی خو پکی ہو گئی، آزادی کی کوئی کرن نہ رہ گئی پھر قدرت نے ایک منصوبہ بنایا، بنی اسرائیل کے غلاموں میں ایک بچہ پیدا ہوا ایسے اسباب پیدا ہو گئے کہ وہ فرعون کے محل میں پہنچ گیا اس نے فرعون کی ساری سیاست اور حکمت عملی سمجھ لی اور نئے دور کے حالات پیدا ہونے لگے۔
مصری تہذیب قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے جب انسانوں نے خانہ بدوشی کی زندگی ترک کرکے کھیتی باڑی شروع کی تو مستقل سکونتوں کا قیام بھی عمل میں آیا کھیتی باڑی اور مستقل سکونتوں کے لئے کم از کم تین خوبیوں والے علاقے موزوں تھے یہ تین خوبیاں مندرجہ ذیل ہیں:
پانی کی دستیابی
زرخیز زرعی زمینیں
موزوں درجہ حرارت اور آب و ہوا
دریائے نیل کی مرکزی پٹی کے چاروں طرف ایسی جغرافیائی رکاوٹیں ہیں جو انسانی تہذیب و تمدن کیلئے موزوں نہیں ہیں اس زرخیز پٹی کے مغرب میں سینکڑوں میلوں تک پھیلا ہوا صحرا ہے جسے صحارہ Sahara Desert OR Libyan Desert کہا جاتا ہے اس وسیع و عریض صحرا میں نہ پانی اور نہ خوراک، اوپر سے ریت کی خوفناک طوفان اس طرح یہاں انسانی تمدن ممکن نہیں ہے مشرق میں انسانی تہذیب کی توسیع کی راہ میں تین رکاوٹیں یکے بعد دیگرے پائی جاتی ہیں یہ تینوں رکاوٹیں دریائے نیل کے متوازی چلتی ہیں پہلے صحرا ہے جسے Eastern Desert of Egypt مصر کا مشرقی صحرا کہا جاتا ہے اس کے بعد خشک، بنجر اور بے آب و گیاہ پہاڑی سلسلہ ہے اس کے بعد بحرۂ احمر Red Sea ہے واضع رہے کہ بحرۂ احمر کے دونوں جانب یعنی مشرق و مغرب میں مسلسل خشک پہاڑی سلسلے ہیں شمال میں بحرۂ روم وادئ مصر کو گھیرے ہؤے ہے جبکہ جنوب میں بھی نیم پہاڑی اور نیم صحرائی علاقہ ہے اس طرح چاروں طرف سے غیر تمدنی صورتحال میں گھری ہوئی پر کشش وادئ مصر ہے جہاں پانی اور خوراک موجود ہے گویا مصر بھوکے اور پیاسے پنچھیوں کا ایک ایسا پنجرہ ہے جہاں پنچھی خوشی خوشی آتے ہیں اور قید ہو جاتے ہیں۔
مصر کے فرعون باہر سے آنے والوں اور مصر کے کمزور طبقوں کو آسانی سے غلام بنا لیتے تھے شمال مشرق سے کنعان، مداُین وغیرہ سے آئے ہوئے لوگ غلام بنا لئے جاتے تھے۔
بنی اسرائیلی بھی غلام بنا لئے گئے ان غلاموں سے بڑے بڑے پتھر اٹھوائے جاتے تھے، فرعونوں کے اہرام بنوائے جاتے تھے، کھیتوں میں مزدوری کا کام لیا جاتا تھا اس کے علاوہ ان کی بدترین توہین کی جاتی تھی، عزت نفس اور مردانگی کو کچل دیا جاتا تھا ان کی رگ رگ میں کمزوری اور نسوانیت کوٹ کوٹ کر بھر دی جاتی تھی آزادی کا کوئی راستہ نہ تھا، ہر طرف قدرتی رکاوٹیں تھیں، فرعونوں کا سخت پہرہ تھا، خاندان کے خاندان غلام تھے، بیوی بچوں سمیت کہیں بھاگ جانا ممکن نہ تھا یوں بنی اسرائیل کو نسل در نسل ذلت و رسوائی کا عذاب سہنا پڑ رہا تھا وہ فرعونوں کو ہی اپنا مائی باپ سمجھنے لگے ان کا فرعونوں کے ساتھ کسی قسم کا میل جول نہ تھا انہیں قطعاً علم نہ ہوتا تھا کہ فرعونوں کی سیاست کیا ہے اور وہ منصوبہ بندی کیسے کرتے ہیں ہر طرف مایوسی ہی مایوسی تھی یوں جلیل القدر پیغمبروں، ابراہیمؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور یوسفؑ کی ذریت یعنی بنی اسرائیل کو ذلت آمیز غلامی کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد علت و معلول کے تحت قدرت نے ان کی آزادی کی راہیں ہموار کیں۔
بنی اسرائیل حضرت یوسفؑ کے دور اقتدار میں 1806 ق-م میں اپنے والد گرامی قدر حضرت یعقوبؑ کے ہمراہ اپنا آبائی وطن کنعان چھوڑ کر مصر میں آباد ہو گئے وہ شان و شوکت سے مصر میں رہنے لگے سولہ سال بعد 1859 ق-م حضرت یعقوبؑ شدید بیماری کا شکار ہو کر رحلت فرما گئے انہیں عارضی طور پر مصر میں سپرد خاک کیا گیا سترہ سال بعد حضرت یوسفؑ نے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کی باقیات کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ اپنی والدہ کے ساتھ کنعان میں لے جا کر دفن کردیا زمانہ یوں ہی چلتا رہا 1875 ق-م میں حضرت یوسفؑ 110 سال کی عمر پا کر رحلت فرما گئے حضرت یوسفؑ کو ان کی وصیت کے مطابق عارضی طور پر مصر میں سپرد خاک کر دیا گیا ان کی وصیت تھی کہ جب بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کریں تو ان کی باقیات کو ساتھ لے جائیں اور کنعان میں لے جا کر دفن کر دیں۔
مصر کے محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے یوسفؑ کا مقبرہ دریافت کر لیا ہے اور اس کی تصویریں انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
بنی اسرائیل بعد میں موسیؑ کی قیادت میں ہجرت Exodus کے وقت یوسفؑ کی باقیات ساتھ ساتھ لئے پھرے اور بالآخر فلسطین (سابق کنعان) پہنچ کر دفن کر دیں چنانچہ ان کا ایک مقبرہ فلسطین میں بھی ہے جہاں یہودی بڑی عقیدت کے ساتھ زیارت کرنے کو آتے ہیں۔
مصر میں بادشاہ بدلتے گئے حضرت یوسفؑ کی رحلت کے 75 سال بعد تک بنی اسرائیل کی کم و بیش وہی شان و شوکت رہی پھر جو نئے بادشاہ (فرعون) آئے تو حالات نے پلٹا کھایا نئے فرعون کے نزدیک حضرت یوسفؑ کی کوئی اہمیت نہ تھی اور نہ ہی بنی اسرائیل کی کوئی قدر و قیمت تب تک مصر میں بنی اسرائیل کی آبادی بہت بڑھ چکی تھی نئے فرعون کو خطرہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں یہ عبرانی مصر کے بیرونی دشمنوں کے ساتھ مل کر مصر پر قبضہ ہی نہ کر لیں انہوں نے عبرانیوں کی آبادی کم کرنے کی کچھ ناکام کوششیں بھی کیں اور بنی اسرائیل کا تمام عیش و آرام چھین کر ان پر بد ترین غلامی نافذ کر دی انہیں اس قابل نہ چھوڑا کہ کبھی بغاوت یا آزادی کا خواب بھی دیکھنے کی جراء ت کر سکیں یوں بنی اسرائیلیوں کی نس نس میں غلامی رچ بس گئی صدیاں گزر گئیں غلامی کی خو پکی ہو گئی، آزادی کی کوئی کرن نہ رہ گئی پھر قدرت نے ایک منصوبہ بنایا، بنی اسرائیل کے غلاموں میں ایک بچہ پیدا ہوا ایسے اسباب پیدا ہو گئے کہ وہ فرعون کے محل میں پہنچ گیا اس نے فرعون کی ساری سیاست اور حکمت عملی سمجھ لی اور نئے دور کے حالات پیدا ہونے لگے۔