وہ فقر و استغناء کی علامت نظر آتا۔ اس کا دو کمرے کا فلیٹ بطور مثال پیش ہوتا۔ وہ گھر سے دفتر کے لئے روانہ ہوتا تو ٹفن ہاتھ میں ہوتا۔ وہ سادہ سی گاڑی میں سفر کرتا اور ہر سگنل پر اس کی گاڑی رکتی۔ وہ کہتا، میرے پاس کپڑوں کے دو ہی جوڑے ہیں، ایک وہ جو تن پر ہے اور دوسرا وہ جو دھلنے گیا ہے۔ اس کے ان دو جوڑوں پر بھی دھبے نظر آتے۔ شائد اسے بھی کسی نے کہہ رکھا تھا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ اس کے موزے پھٹے اور جوتے ادھڑے ہوتے۔ وہ پہلے کھولتا پھر بولتا اور جب بولتا تو لگتا یہودیوں کے بد ترین دشمن بخت نصر کی روح مجسم ہو گئی ہے۔ وہ بس"شہنشاہ" والے امیتابھ بچن کی طرح یہ نہیں کہتا تھا "رشتے میں تو ہم تمہارے باپ ہوتے ہیں، نام ہے شہنشاہ" باقی کاسمیٹکس ہر زاویئے سے مکمل اور بے داغ ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے مشہور ہیروئینوں کو بغیر میک اپ کے تو دیکھا ہوگا؟ بالکل ویسی رنگت جو تالاب خشک ہونے پر زمین کی ہوتی ہے۔ سابق ایرانی صدر احمدی نژاد پر وہی وقت ہے۔ ہیروئین کا میک اپ بہہ رہا ہے اور خشک تالابی رنگت سامنے آتی جا رہی ہے۔ ان کے پہلے دور حکومت کے نائب صدر محمد رضا رحیمی کو پانچ سال قید اور تین لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا ہوچکی جبکہ دوسرے دور حکومت کے نائب صدر حامد بقائی کو بھی عدالتی کار روائی کے لئے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اب احمدی نژاد کی باری ہے۔ سادگی کے اس گوتم بدھ کی زیادہ نہیں بس ستر ارب ڈالر کی میگا کرپشن پکڑی گئی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری ایران جاتے تو علی خامنہ ای کے بجائے احمدی نژاد پر وارے جاتے۔ پروٹوکول کسی کے کول نہ رہتا اور دونوں یوں ملتے جیسے لنگوٹیے اور ہم مشرب ہوں۔ جیسے دونوں وہ جڑواں بھائی ہوں جو بچپن میں بچھڑنے کے سبب باہمی رشتے سے تو ناواقف ہوں لیکن ایک دوسرے کے لئے غیر معمولی کشش محسوس کرتے ہوں۔ بالکل فلموں کی طرح۔ وہ جڑواں نہ سہی، دودھ شریک بھی نہ سہی، ڈالر کی قسم کھیر شریک بھائی تو لگتے ہی ہیں۔