مقابلہ وفا کا دشمن ہے، جہاں وفا ہو وہاں مقابلہ نہیں ہوتا،وفا نہ یکطرفہ ہوا کرتی ہے نہ دو طرفہ، وفا بس وفا ہوتی ہے۔ مقابلہ حسد کو جنم دیتا ہے۔ مقابلہ اتحاد کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ مقابلہ خاندان تباہ کر دیتا ہے۔ مقابلہ دوستی، محبت، بھائی چارہ اور حتی کہ خون کے رشتوں کو کچل دیتا ہے۔ مقابلہ قدرت کی طرف سے سونپا گیا کردار بھلا دیتا ہے۔ مقابلہ دشمن ہے علم و عرفان کا۔ مقابلہ دشمن ہے عشق و مستی کا۔مقابلہ حرص و ہوا کو جنم دیتا ہے۔ مقابلہ حقارت پیدا کرتا ہے۔ مقابلہ میں فقط میں ہی میں ہوتا ہے۔
اس لئے اے شریف انسانو! آپس میں مقابلے میں نہ پڑا کرو۔ وفا نبھاؤ۔ اپنا اپنا کردار نبھاؤ۔ لہو کا رنگ ایک ہے، جینے کی امنگ ایک ہے، لہو کو حقیر نہ جانو۔ لہو کی پہچان مت بھولو۔ زندگی اور موت میں ایک ساعت کا فرق ہے۔ میں اس تجربے سے گزر چکا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم رہا کہ میرا پرس کہاں ہے، کریڈٹ کارڈز کہاں ہیں۔ عینک کہاں ہے۔ میں ایک پل میں صدیاں جی آیا، میں پریم پیالہ پی آیا۔ لہذا محبت کو فروغ دو۔ محبت لازوال ہے۔ محبت خدا کا پیغام ہے۔ محبت خدا کا رسول ہے۔ محبت عشق کا اصول ہے۔ محبت بلال ہے، محبت ابو زر ہے، عمار ہے، میثم تمار ہے۔ محبت صراط مستقیم ہے۔ ہر وقت ۹۹ کے چکر میں نہ پڑے رہو۔ کسی کو کمتر نہ جانو۔ لہو کا رنگ جب ایک ہے تو کیا پتہ کہ کل کو کس کا لہو جوش ماریاور کمتر کو برتر بنا دے۔ جان لو کہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا انسان ہی ہے جبکہ سونے چاندی کے انبار پر بیٹھا ہوا کتا کبھی انسان نہیں بن سکتا۔ زندگی میں نشیب و فراز ہوتے ہیں۔ زندگی ہموار نہیں ہوتی۔ قدرت پست کو بالا کر سکتی ہے۔خدا نے معاشرے کی پست ترین عورت کا پڑوسی بننا پسند کیا یعنی حاجرہ کا پڑوسی۔ حاجرہ کون ہے؟ ایک کنیز اور وہ بھی ایک دوسری عورت کی کنیز، وطن سے دور، صحرا نشین، نہ کوئی حسب نہ نسب۔ خدا نیاپنا گھر حاجرہ کے گھر کے ساتھ جوڑ کے بنوایا۔ حکم دیا کہ طواف کرو میرے اور حاجرہ کے گھر کا۔ نہ صرف طواف کرو بلکہ حاجرہ کی ساری کاوشیں دہراؤ۔حاجرہ کی تمام مشقتوں کا احساس کرو۔ یعنی حج اور حاجرہ ساتھ ساتھ۔ قدرت کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں، قدرت ہر پست کو بالا کر سکتی ہے اور ہر مغرور و متکبر کا نام و نشان مٹا سکتی ہے۔ اس لئے محبت عام کرو اور مقابلہ و حسد سے دور بھاگو۔