31 اگست، 2015

وسائل ہی وسائل، مگرپھر بھی مسائل۔۔۔!

ایک دفعہ کسی کھوہ(کنواں) میں کتّاگر گیااُس مُلک کے بادشاہ نے حکم دیاکہ کنویں کا پانی نکال دیا جائے چنانچہ بادشاہ کا حکم بجا لاتے  ہوئے کنویں کاپانی تو بدل دیا گیامگر کُتے کوباہر نہ نکالا گیا۔کچھ ایسی ہی صورتحال سے ہماراوطن عزیزبھی گزر رہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایک غریب،پسماندہ اور کمزورملک ہے؟؟؟؟؟ہر گزبھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔بلکہ ہمارے پاس دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے،پانچویں بڑی سونے کی کان ہے،پانچویں بڑی کوئلے کی کان ہے،ساتویں بڑی تانبے کی کان ہے مگرپھر بھی ہمIMF سے بھیک کیوں مانگتے ہیں؟ہم ساتویں بڑی ایٹمی طاقت ہیں،ارض ِپاک پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے مگرپھر بھی یہاں لوڈ شیدنگ کیوں ہوتی ہے؟ہماری پاس دنیا کی چھٹی بڑی آرمی ہے،ہم نیو کلیئرپاورہیں،ہمارے پاس نمبر1ٹرینڈآرمی ہے،پھر بھی بھارتی جارحیت اورحملوں پر ہمارے حکمران کیوں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اقوامِ عالم میں ہماری عزت وسا  لمیت کو کیوں للکارا جاتا ہے؟ہم ساتواں بڑاچاول پیداکرنیوالا ملک اورآٹھواں بڑاگندم پیداکرنیوالازرعی ملک ہیں، پھر بھی مہنگائی اور غذائی قلت کا شکارکیوں ہیں اور کیوں ہمارے کسان ذلیل و خوار ہورہے ہیں؟ہمارے پاس بے شمارقدرتی وسائل(تیل،گیس،قیمتی پتھر،نایاب معدنیات)ہیں اوراس کے علاوہ ہمارے پاس محنتی اورجفاکش افرادی قوت کی فراوانی ہے لیکن پھر بھی یہاں بے روزگاری کیوں ہے؟ہماراملک اسلام کے نام پر قائم ہونیوالا ملک ہے مگر پھر بھی یہاں فرقہ واریت اور مذہبی انتہاپسندی کیوں ہے؟موجودہ حکومت برسرِاقتدار آنے سے پہلے یہ دعویٰ کرتی پھرتی تھی کہ ہمارے پاس بہترین تجربہ کی حامل ٹیم ہے مگر”حکومتی تجربہ کار ٹیم“ہونے کے باوجوداداروں کو بہترکرنے کی بجائے ان اداروں کی تباہی کیوں کی جا رہی ہے؟ہم سے بعد میں آزاد ہونے والی اقوام آج ہم سے آگے نکل چکی ہیں،آخرکیوں؟ہماری ترجیحات کا انتخاب درست نہیں ہے،آخر کیوں؟ہمارے ہاں ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہیں،آخر کیوں؟امیر،امیرتر اور غریب،غریب تر،آخر کیوں؟جائز کا م کروانے کی بھی رشوت،آخر کیوں؟جتنا بڑا چور،اتنا بڑا عہدہ،آخر کیوں؟ان تمام مسائل اور”کیوں“ کی وجہ صرف اور صرف ایک ہی ہے وہ یہ کہ ہم بھی کنویں سے پانی ہی نکال رہے ہیں ”کُتا“نہیں۔
شائد ہمارے لکھنے یا پڑھنے سے حکمرانوں کی صحت پر کوئی اثر نہ ہو۔۔۔مگر ”دستک“ تو دینی چاہیے نا!
مکمل تحریر >>

30 اگست، 2015

سوزان رائس سے کس کس کو ڈانٹ پڑی..؟؟

قارئین گرامی؛ تیز رفتار گلوبل میڈیا کے اس دور میں یہ حقیقت زیادہ دیر تک چهپی نہیں رہے گی کہ خاکی شرفاء کے بوٹ اور سرخ و سفید شرفاء کے تلوے چاٹ چاٹ کر روزی روٹی کمانے کے عادی ہمارے میڈیا نے امریکی مشیر برائے سلامتی امور مس سوزان کی پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کے ساتھ ملاقاتوں کے صرف اس پہلو کو ہی اجاگر کیا جو ان شرفاء کے حق میں جانا ہے؛ جبکہ امریکی اہلکار کے دورے کے "تکلیف دہ" پہلوؤں کو نظرانداز کرنے کی بھونڈی کوشش میں اپنا رہا سہا اعتبار پر داوء لگا دیا ہے ...
آیئے؛ ہم آپ کو اصل صورت سے آگاہ کریں اور وہ بهی اپنے چند روز پرانے ایک تجزیہ بلکہ پیشین گوئی کے حوالے سے ...
مجهے باقاعدگی سے پڑهنے والوں کو یاد ہوگا کہ چند روز قبل آرمی چیف، وزیر اعظم اور وزیرِ داخلہ کی جانب سے "دہشت گردی کے خلاف ان دیکھی کامیابیاں اور مستقبل کے اقدامات" کی اچانک تکرار نے جب میرے کان کھڑے کئے تو کسی "سورس" کے بغیر صرف اپنی تجزیاتی حس کی مدد سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب "کوالیشن اسپورٹ فنڈ" کی کئی ملین ڈالرز پر مشتمل نئی قسط سر پر آن پہنچنے کا کرشمہ ہے ..
اپنے اس درست ترین اندازے کی بنیاد پر بی راقم الحروف نے "پهرتیاں" کے عنوان سے لکهے اپنے مختصر مضمون میں یہ "انکشاف" بهی کیا تها کہ پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت نے نام نہاد "ضربِ عضب" اور نام نہاد "نیشنل ایکشن پلان" دونوں کی حقیقت آشکار کر کے قوم سمیت دنیا بھر کے سامنے خاکی اور سفید دونوں شرفائے البنجاب کی کارکردگی مکمل طور پر بے نقاب کر کے رکھ دی ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے ذمہ دار ہمارے سول اور عسکری اعلیٰ عہدہ دار بے چارے اسی کارن "پهرتیاں" دکھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ...
امریکی صدر کی مشیر برائے سلامتی امور سوزان رائس کے موجودہ دورہ الباکستان کے دوران منافق اور زرخرید ملکی میڈیا میں "کل" کی گئی اس خبر نے میرے مذکورہ بالا تجزیہ پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے، جس کے مطابق
"پاکستانی قیادت نے مس رائس کے سامنے امریکی اسپورٹ فنڈ کی قسط روکے جانے کا سوال بهی اٹھایا ہے" ..
گویا الباکستانی صورت حال کے تناظر میں میرے اس وقت کے اس اندازے کی درستگی بهی ثابت ہو گئی کہ
"کرنل شجاع خانزادہ کے سانحہ کے بعد الباکستان کیلئے دہشت گردی کی بیخ کنی والی اسائنمنٹ کے حوالے سے امریکہ سمیت عالمی برادری کو مطمئن کرنا اب مشکل ہوگیا ہے اور اس کا اثر اس اسائنمنٹ کے معاوضے کی آئندہ قسط پر پڑتا دکهائی دے رہا ہے"..
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سوزان رائس کے تازہ دورہ کی روشنی میں تو بات اس قسط کے روک لئے جانے تک پہنچ گئی ہے ....
سوزان رائس کے حالیہ دورہ کے حوالے سے ایک اہم خبر یہ بھی رہی ہے کہ محترمہ نے پاکستان کی جانب سے بهارتی جارحیت کی شکایت کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ "بھارت کے پاس اس کا جواز پاکستان کی طرف سے جاری دہشت گردی کی صورت میں موجود ہے"؛ جس کا الباکستانی قیادت کے پاس جوابی الزام تراشی کے علاوہ کوئی جواب نہ تها، جسے بہر کیف امریکی مشیر کی طرف سے خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ..
سوزان رائس کی اس "بے نیازی" سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ امریکہ بہادر اب ٹی وی چینلز پر پرانی وڈیوز اور نئے پریس ریلیزز کے ذریعے جاری "ضربِ عضب" کے چکر میں مزید آنے والا نہیں ہے ..
کیمرہ فوٹیج سمجھنے اور باڈی لینگویج پڑهنے کی صلاحیت والے احباب، دونوں شرفاء بالخصوص خاکی شریف کے ساتھ ملاقات میں مس سوزان کے چہرے کی سختی بلکہ کرختگی سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پیغام کیا ڈلیور کیا جا رہا ہے؛ 
کاش ہم پاکستانی قوم کی طرح کل کی امریکی چھوکری کو بھی کهل کر بتا سکتے کہ "پہلے ہم سندھ تو فتح کرلیں، دہشت گردوں سے بهی نمٹنے رہیں گے"..
خواتین و حضرات؛ سوزان رائس نے پاکستان جیسی اپنی محکوم بلکہ بهکاری اقوام کیلئے مخصوص امریکہ کی المشہور "ڈومور" کال کا اعادہ کرتے ہوئے، افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان، ملا عمر کی ہلاکت کے بعد رک جانے والے ان مذاکرات کے فوری احیاء پر بهی زور دیا ہے، جس میں پاکستان "سہولت کار" کا کردار ادا کر رہا تھا ...
...... سنتا جا، شرماتا جا
مکمل تحریر >>

ہماری منزل کیا ہے...؟

 ہمارا مُلک کدھر جا رہا ہے؟ہماری منزل کیا ہے؟ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ایسے بیشمار سوالات مجھ جیسے ایک عام پاکستانی کے دل ودماغ اور زبان پر ہیں۔اور وہ ہرنئی صبح کو نئی اُمید لیے بیدار ہوتا ہے کہ شائد آج کا دن اُس کے کل سے بہتر ہوگامگر یہ صرف اس کی ”خوش فہمی“ہی ثابت ہوتی ہے۔مہنگائی،غربت،بے روزگاری اورگھریلو پریشانیوں نے ویسے ہی ایک عام آدمی کی ”مت“مارکر کے رکھ دی ہے۔دوسرا ملک کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ انہیں دیکھتے ہوئے کسی بھی محب وطن کا دل روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔وطنِ عزیزکے بیچارے عوام پر ان مسائل نے اس حد تک گہرے اثرات مرتّب کیے ہیں کہ غریب آدمی ایک توسارا دن روزی،روٹی کے حصول میں ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے اور جب شام کو تھکا ہارا جب گھر لوٹتا ہے تو آگے”لوڈ شیڈنگ اور مچھر“اس بیچارے کے”استقبال“ کے لیے راہیں بچھائے،نظریں جمائے،تاک لگائے انتظار میں ہوتے ہیں۔وہ رات بھر ان سے نبرد آزما ہوتا ہے اور اس وجہ سے نیند بھی پوری نہیں کر پاتاہے۔صبح پھر کام پر چلا جاتا ہے کیونکہ کام نہیں کرے گا تو کھائے گا کہاں سے؟بجلی آئے نہ آئے بل تو ٹائم پر آئے گااور وہ بھی اتنا۔۔۔ کہ جیسے ”چاند“بھی شائد اس بیچارے کے میٹر سے روشن ہوتا ہو۔ اوراس تما م صورتحال کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ وہ ایک قسم کا ذہنی مریض بن کر رہ جاتا ہے اور اس میں چڑچڑاپن،غصہ،عدم برداشت،بلڈپریشراور خود گفتاری جیسی ”بیماریاں“گھر کر لیتی ہیں۔ اچھے،بُرے حالات اور نشیب وفرازقوموں کی تاریخ و بقا ء کا حصہ رہے ہیں مگر ان قوموں کوایسے لیڈرز اور قیادت ملی کہ انہوں نے اپنے لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں جس کی زندہ مثال ہمارا ہمسایہ اور دوست ملک چین ہے جو ہم سے دو سال بعد میں آزاد ہوامگر آج ہم سے بہت آگے نکل چکاہے بلکہ دنیا کے لیے چین کی ترقی ایک مثال ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دوسری طرف ہمارے حکمرانوں نے ہمیں ایسے ”ٹرک کی بتّی“کے پیچھے لگایا ہوا ہے جس میں شائد انجن بھی نہیں ہے،ہمارے آقاہماری نام نہاد ”خوشحالی اور ترقی“کے بلندوبالاکرتے رہتے ہیں ہر سال بجٹ میں حسبِ سابق نئی نئی ”گولیاں“دے دیتے ہیں جن ”گولیوں“کافی الحال اثر کم اور ”سائیڈایفیکٹ“زیادہ نظر آرہا ہے۔اور تو اورآج ہمیں افغانستان بھی ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔حالیہ کراچی کے حادثہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ حکومتی صفوں میں خود بھی اعتماداور سنجیدگی کا فقدان ہے،وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ کوششیں کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر غیروں اور ملک دشمنوں کا کام آسان کر رہی ہیں۔حکمرانو!بیچاری عوام کو ”بھیڑ بکریوں“کی طرح نہ سمجھیں کہ جدھر چاہا ہانک لیا،مانا کہ آپ کو ووٹ دینا ان کا جرم ہے مگرخدارا!اللہ کے عذاب سے بچیں۔اس کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے،اس ملک کا بھی کچھ سوچیں جس نے آپ کو عزت اور پہچان عطا کی ہے۔
مکمل تحریر >>

ٹنگ دیو اناں سالیاں نوں..!!

پیپلزپارٹی والے تو ہیں ہی "غدار"؛ بس ایک "دہشتگردوں کی پشت پناہی" کا الزام رہ گیا تھا، سو ہم نے وہ بهی ثابت کر دکهایا ...
یہ پاکستانی طالبان، لشکر جھنگوی، یہ سپاہ صحابہ ان سب کی پالنہار یہی پارٹی ہی تو رہی ہے ..
دہشت گردوں کے یہی "دلال" چھ سال اپنے باپ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد کینٹ میں چُھپا کر بیٹھے رہے ...
ہم بتاتے ہیں عوام کو کہ مہران بیس حملہ اور جی ایچ کیو حملہ میں بهی انہی کے غدار، دہشتگردوں کے دلال فوجی ہی ملوث تھے ..
اور تو اور اوجھری کیمپ کے ڈاکوؤں اور مہران بینک کے لٹیروں کے سر پر بهی انہی کی بے غیرت "اشٹیبلشمنٹ" کا ہاتھ تها ...
ملاعمر جیسے دہشتگرد کا جنازہ پڑھانے والا حافظ سعید، حکیم اللہ محسود کو شہید کہنے والا اور قتال فی سبیل للہ کا درس دینے والا منورحسن، "طلبان اور ہماری سوچ ایک ہے" کا نعرہ لگانے والا شوباز اعلیٰ، طالبان کا "ضامن" نوسرباز اعلیٰ، لال مسجد میں خودکش بمبار بنانے والا عبدلعزیز برقعہ، ایک سو پینتالیس بچوں کی شہادت کے بعد بهی طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنے والا سونامی خان اور یہ انڈیا کے سامنے ترانوے ہزار ہتھیار ڈالنے والا بے غیرت جرنیل بهی؛ 
جی ہاں؛ یہ سب "کالے چہرے" اسی راندہ درگاہ پارٹی کے ہی "بچہ لوگ" ہیں ...
ان پیپلیوں کے علاوہ باقی سب تو بس "الباکستانی" ہیں؛ لہٰذا سب کے سب "صادق و امین فرشتے"..!!!!
(از سہیل خان سیال؛ بترمیم و اضافہ)
مکمل تحریر >>

آؤ؛ سندھ ہی فتح کر ڈالیں..!!

دہشت گردی کی ہر نئی واردات پر وزیرستان اور ہر بھارتی جارحیت پر لائن آف کنٹرول پہنچ کر بڑهکیں مارنے کے عادی "محمد بن قاسم" اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں بیٹهے بٹھائے دہشت گردوں کے خاتمے اور بهارتی عزائم کو ناکام بنانے والے "حجاج بن یوسف" کا مشترکہ "اعلان جہاد"...
ہمارے اپنے پالتو دہشت گرد جب چاہیں ہماری زیرِ نگرانی چلنے والے اسکول میں گهس کر معصوم نونہالانِ قوم کو اجتماعی طور پر خون میں نہلا دیں یا سب سے بڑے صوبے کے وزیر داخلہ کے ڈیرے پر حملہ کر کے اسے 70000 معصوم شہداء کے پاس پہنچادیں یا پھر ہمارے فوجی جوانوں کو گولی مار دیں یا ذبح کرتے پهریں؛ ہم سوائے بذریعہ پریس ریلیز اپنے ان "بهائی بندوں" میں سے درجنوں کی "ٹی وی چینلز پر ہلاکت" کے سوا عملاً کچھ کرنے کی ہمت ہی نہیں رکهتے ..
اسی طرح ہمارا اپنا پیدا کردہ "ازلی دشمن" بھارت ہماری حفاظت میں موج مستی کرنے والے حافظ سعید جیسے ہمارے "تذویراتی اثاثہ جات" کو لے کر بین الاقوامی فورمز پر ہماری مٹی پلید کرتا رہے یا پھر آئے روز ورکنگ باؤنڈری یا لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی جوانوں سمیت نہتے شہریوں کو ہلاک کرتا پهرے؛ جواب میں ہمارے پاس لائن آف کنٹرول پر پہنچ کر اپنے جوانوں کا "مورال بلند" کرنے اور انڈین ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ تھمانے کے علاوہ کرنے کو اور کچھ رہ بهی تو نہیں جاتا ...
ہاں البتہ ملک بهر میں ہر قسم کی دہشت گردی کا الزام بھارت پر عائد کرنے کے علاوہ ہم نے اب اپنی ایک اور "ازلی دشمن" پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت والے صوبہ سندھ کو "دہشت گردوں کا معاون" ثابت کرنے کے بعد صوبائی حکومت کے عہدیداروں کی گرفتاری کی صورت میں اس "سیکورٹی رسک" صوبے کو "فتح" کرکے اپنی تمام تر ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا نیا سبق ضرور سیکھ لیا ہے ...
اندریں حالات خواتین و حضرات خود سوچئے؛ رینجرز کی طرف سے سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر عاصم کی بلا الزام اور بلا وارنٹ گرفتاری یعنی باقاعدہ "اغوا" کے گھنٹوں بعد ان پر "دہشت گردوں کی معاونت" جیسے مضحکہ خیز الزامات عائد کئے جانے کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کے دیگر رہنماؤں یوسف رضا گیلانی، مخدوم امین فہیم اور راجہ پرویز اشرف کی متوقع گرفتاری کی خبروں پر ردعمل میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی طرف سے "اعلان جنگ" اور وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی جانب سے ان اقدامات کو "سندھ پر نیا حملہ" کے مترادف قرار دینے میں آخر غلط ہی کیا ہے...؟؟
مکمل تحریر >>

27 اگست، 2015

A TEACHER

Every member of the Teaching Faculty is not a Teacher. A teacher is a person who teaches, who comes up with innovative thoughts, who inspires his students towards learning and searching, who shakes their existing knowledge, who creates new questions and promote discussion and debate, who creates pride of knowledge among his students, who enjoys sharing knowledge, who is committed, dedicated and keen to learn more and more, who is equipped with latest knowledge with clarity, who talks face to face and eye to eye with understanding of responses of his students through their face expressions and body language, who is able to simplify complex issues to be easily understandable, who does not repeat same lessons every year, who understands why his students are not responding, where they are stuck, why they are stuck and how they should be motivated and inspired.
Slide shows with the help of multimedia in a dark room should not be preferred, however, may be rarely adequately used. Teaching should be based on promotion of discussion and debate. Teaching must not be based on dictation and memorization only. Teaching must promote thinking leading to creative and innovative ideas for qualitative solutions to the complex problems. A teacher is answerable to himself. A teacher must be honest, truthful and responsible person. Thus teaching becomes enjoyable and a source of eternal satisfaction. A teacher must be an ideal role model of the youth.


مکمل تحریر >>

THE THIRD FEAR, The Most Dangerous.

When MAN was created and he started his activities over the planet of Earth, he faced two major problems in the way of his survival:

(1) Hunger (Joo in Arabic)
(2) Fear (Khauf in Arabic)

There were already created numerous natural resources of FOOD. They include food grown from the soil; vegetables and fruits, sea food, animals to be hunted. Man was required to gather / collect food according to his needs, he could hunt animals, he could produce more food with his efforts. He could move from place to place and settle at his favorite places over the planet. Thus food was unlimited and it is still unlimited.
He faced fear from natural disasters; earth quakes, tsunamis, floods, extreme weathers etc. and fear from wild and poisonous animals. The Man was equipped with thinking and creative abilities to save himself from these fears. And in fact he has largely saved himself from most of these fears by using his abilities.
Now Man is facing a THIRD FEAR, Fear of Man from Man. This fear has been created by Man himself. This is based on desire and lust for occupation of all economic resources, occupation of others' lands and properties through imposition one's faith on others. This gave birth to intolerance and paved the way for ignorance. Those human societies which allowed tolerance, they could fight against ignorance and progressed. And the intolerant societies remained ignorant and never progressed because they could not participate in inventions, discoveries, innovative knowledge and forward movement.
What a life we are living and what a place we are living? Insecure, frightened, helpless, weak, a place where people impose their agenda on gun-point, a place where ignorance is dominant, a place where no person and no place is safe. Even Mosques, Imam-bargahs, Churches, Temples are not safe. A place where suicide bombers, killers of innocent people are "Janaty". A jungle where there is no law, not even law of jungle. A place where we have lost our identity, our pride, our destiny. A place where audience dictate the speaker. A place where people are rigid. A place where teachers are dictated on what to teach. A place where academic degrees are without knowledge. A place where meanings of merit are changed. A place where success means snatching and looting by hook or by crook. A place where only gangsters are upright. A place where argument has died. A place where intolerance has dominated.......
مکمل تحریر >>

GREATNESS OF MY MOTHER

Once upon a time when I got admission in Class 9 (Matriculation) at Government Pilot Secondary School Sialkot after completion of my education from the rural Middle School of Rasulpur Bhallian. I went to Urdu Bazaar, Sialkot and bought new books from "Shah and Sons". I was very happy and returned to my village Raja Harpal, about eight miles east of Sialkot city. My mother was waiting for my return from school as she used to do every day. She was also very happy that I have the books which I needed. I opened the books, checked the prices and made the total. The total was wrong. The shopkeeper had not added the price of one book and that was book of "Physics". I told my mother. She advised me not to read the books till the price is fully paid. I followed the instructions of my mother. Next day I took all the books to "Shah and Sons" and told Shah Sahib that total of prices of the books was wrong. He checked the total and I paid the remaining amount.
It was month of April 1965. Later in September 1965 the war between India and Pakistan broke up. Our village was occupied by Indian Army. We moved to an other village situated to North West of Sialkot City. We stayed there for more than Six months. After an Agreement between India and Pakistan we returned to our village. During six months' occupation, Indian Army had demolished and burnt our house where walls were fallen on roof except one wall where my School Bag was hanging but burnt. The house was burnt and many times it had been rained. When I reached my house I saw that my book of "Physics" had fallen out of the Bag and was still totally safe. It had neither caught the fire nor damaged by rain. I thought it was all due to my mother's honest advice to pay the price of books before opening them for reading. Honesty pays. Honesty is the best policy. 
I love my mother who always taught me keeping up good values. May Allah Almighty place her soul close to the Prophets, Martyrs, Truthful and Righteous people Ameen Sum Ameen
مکمل تحریر >>

26 اگست، 2015

پتر ہڑپے دا (پنجابی نظم)

It was 1991. I was at the University of Sheffield and studying and searching the Indus Valley Civilization and how it was looted by the Foreign invaders, Aryans, Mughals, British etc. I started thinking that I, one of the sons of soil of Indus Valley was also a victim of External Invaders, then following Poem was revealed in the Punjabi Language as a "Son of Harrappa."
اجڑے پنجاب تے اجڑی پجڑی نظم
ایہہ میرا ہڑپہ میرا سی
ایتھے وگدیاں ددھ دیاں نہراں سن
ہر پاسے لہراں بہراں سن
ایتھے تھاں تھاں میلے لگدے سن
گبھرو مٹیاراں سج دے سن
ایتھے رہندا نت سویرا سی
ایہہ میرا ہڑپہ میرا سی
۔۔۔۔۔۔۔
ایہناں آریاں مغل چوغتیاں نے
ابدالیاں تے انگریزاں نے
مینوں عرش توں فرش تے سٹیا اے
میرا سب خزانہ لٹیا اے
ایہناں دھرتی لیر و لیر کیتی
وکھ رانجھے توں ایہناں ہیر کیتی
ایہناں دتا صرف ہنیرا اے
ایہہ میرا ہڑپہ میرا اے
۔۔۔۔۔۔۔
مینوں آکھدے ہنھ مصلی نیں
کرمو دا پت متلی نیں
میں اصلی وارث پنجاب دا ہاں
راوی تے چناب دا ہاں
اساں ہن قبضہ واپس لینا اے
اجڑیا دیس وساؤنا اے
ایہہ قرض! اگلیاں پچھلیاں نسلاں دا
اگے ودھ کے ہن چکاؤنا اے
اساں ہڑپہ فیر وساؤنا اے
ہن کامے ڈانگاں کڈھن گے
تے سارے چور لٹیرے 
ساڈے اگے لگ کے بجھن گے
ایس دھرتی دے اصلی وارث
رجھن گے تے گجھن گے
فیر تھاں تھاں میلے لگن گے
فیر گبھرو مٹیاراں سجن گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایہہ میرا ہڑپہ میرا سی
ایہہ میرا ہڑپہ میرا اے
مکمل تحریر >>

متحدہ ہندوستان کی بذور منظم طاقت آزادی کا آخری علم بردار ..!!

علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ
بهول بهلکڑ قوم کو یاد دلاتے چلیں کہ مورخہ 25 اگست 2015 مسلم برصغیر کے ایک بهولے بسرے لیکن تاریخ ساز کردار بطل حُریت، ضعیم ملت اور نقیبِ فطرت علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ کا 127 واں یوم پیدائش جبکہ 27 اگست آپ کا 52 واں یومِ وفات ہے ...
بطل حُریت اور عالم بے بدل علامہ عنات اللہ خان المشرقی نے 25 اگست 1888 کو اس عالم رنگ و بو میں قدم رکھا۔۔ یورپ کی عالمی شہرت یافتہ جامعات میں ناقابلِ تنسیخ تعلیمی ریکارڈ قائم کرنے کے بعد 26 اگست 1930 کو متحدہ ہندوستان میں مسلم تسلط کے احیاء کی دعوے دار آخری تحریک "خاکسار" کی بنیاد رکھی۔۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے ہنگام انگریز نے جب ہندوستان کی تقسیم کا حتمی فیصلہ کرلیا تو 19 مارچ 1940 کو لاہور میں خاکساروں کے خون سے ہولی کھیل کر تنظیمی مراحل سے گذرنے والی خاکسار تحریک کو بزور کچلنے کے چار روز بعد اسی شہر میں نئی قیادت اور نئے نعرے کے ساتھ نئی تحریک کا آغاز کردیا گیا۔ 
علامہ المشرقی نے قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کو مظبوط و مستحکم بنانے کی خاطر کئی کارآمد  منصوبے پیش کئے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔ علامہ بعالم تمام حسرت و یاس 27 اگست 1963کو بالآخر اپنے مرکز واقع اچھرہ لاہور میں جا آسودہ خاک ہوئے۔۔۔ 
             اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
جی ہاں؛ اپنے وقت کا سب سے زیادہ پڑها لکها انسان، وہی المشرقیؒ جس نے ناصرف یورپ کی اعلیٰ ترین جامعات میں علمی فتوحات کے ناقابل فراموش جھنڈے گاڑنے، بلکہ اسے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیابی کی آخری منظم کوشش "خاکسار تحریک" کا بانی قائد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ..
اور جس کی صدائے جرس پر کان نہ دھرنے کا نتیجہ اس بدقسمت خطے کے تمام مسلمان نجانے کب تک بھگتتے رہیں گے ..
"ہم نے ملک تو حاصل کرلیا، لیکن قوم نہ بن سکے"، کی دہائی دینے والوں کیلئے دعوت عام ہے کہ زعیم مشرق علامہ المشرقی کی جانب سے، جہادی گروہ کی تشکیل نہیں بلکہ، افراد معاشرہ میں ڈسپلن پیدا کرکے انہیں صحیح معنوں میں ایک "قوم" کے قالب میں ڈھالنے کی خاطر رائج کئے گئے گیا "قطاروں میں عسکری قواعد پرمبنی تربیتی نظام" سے بہتر اور تیز اثر طریقہ کار، اگر کوئی موجود ہے تو اس کی نشاندہی ضرور کریں۔
یاد رکھئے خواتین و حضرات؛ تاریخ کے تناظر میں علامہ المشرقی کا نظریہ نہیں، البتہ خاکسار تحریک برٹش سامراج کے تیز رفتار استبدادی ہتھکنڈوں کے سامنے بظاہر ناکام ضرورہوئی۔ اسے انگریز کی عدالت سے سیاسی وکیلوں کی جیت قرار دینے والے آج اڑسٹھ برس بعد تک برطانیہ کے جانشین امریکہ بہادر کی مسلسل غلامی کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ 1947 میں ہمیں "آزادی" مل گئی تھی تو وہ آئندہ ایک صدی تک غلامی کے اسی طوق کیلئے اپنی گردنیں تیار رکھِیں۔۔
آج کا نوجوان اگرچہ الباکستان کے ہر شعبے میں غالب مخصوص مسلم لیگی ذہنیت کے زہریلے پروپیگنڈہ کے زیرِ اثر، میدان حریت اور علم و تحقیق میں اس گوہرِ تابناک کے کارہائے نمایاں سے غافل ہے؛ لیکن آنے والا وقت ثابت کر دے گا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد کے دور میں برصغیر بالخصوص مسلمانان ہند کے مستقبل کو درپیش خطرات کو بر وقت بھانپتے ہوئے، مسائل کا جو حل المشرقیؒ نے تجویز کیا تھا، اسے پذیرائی نہ دے کر ہندی اقوام نے کتنے بڑے گھاٹے کا سودا کیا ...
آیئے؛ اس موقع پر بطل حُریت، ضعیم مشرق کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کر کے اس عظیم الشان شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اپنی سی ایک کوشش کریں..!!
ڈهونڈو گے ہمیں برسوں برسوں
  ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
Nobel Prize Nominee (Literature) August 25, 1888 - August 27, 1963. Punjab University: Master of Arts (M.A.) in Mathematics; Degrees from Christ's College, Cambridge University, England (1907-1912): Bachelor of Arts (B.A.), Bachelor of Science (Bsc.), Bachelor of Engineering (B.E.), Bachelor of Oriental Languages (B.O.L.). Four Triposes with distinction in five years (at Cambridge University from 1907-1912) in Mathematics, Natural Sciences, Mechanical Sciences, and Oriental languages. Titles awarded at Cambridge University: Wrangler, Foundation Scholar, and Bachelor Scholar; Fellow of the Royal Society of Arts (F.R.S.A) (1923), Fellow Geographical Society (F.G.S) (Paris, France), Fellow of Society of Arts (F.S.A) (Paris, France). Member of the Board at Dehli University, President Mathematical Society, Authored Tazkirah and many other books, Member International Congress of Orientalists, President All World's Faiths Conference (1937), A delegate to Palestine World Conference, Gold medalist World Society of Islam, Head of the delegation for the Motamar-I-Khilafat Conference at Cairo, Member of Indian Education Service ( I.E.S), Under Secretary of Education of undivided India, Founder of the Khaksar Tehrik.
مکمل تحریر >>

25 اگست، 2015

"پهرتیاں..!!

"ملک سے ہر قیمت پر دہشت گردی کا خاتمہ کر کے دم لیں گے".. چیف اعظم
150 ملین ڈالرز پر مشتمل کوالیشن اسپورٹ فنڈ کی آئندہ قسط کی وصولی کا وقت آن پہنچا؛ "وہ" سابقہ قسط کے بدلے کارکردگی کا حساب کتاب مانگ رہے ہیں، اب کیا کریں..؟؟
"فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف باقاعدہ آپریشن کا وقت آگیا ہے"؛ وزیر اعظم
میرے اپنے صوبے کا وزیر داخلہ ہی جب دہشت گردی کا نشانہ بن گیا ہے، کوالیشن اسپورٹ فنڈ کی اگلی قسط کس منہ سے مانگوں گا...؟؟
"دہشت گردوں کے تمام تر ٹھکانوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے"؛ وزیر داخلہ
کرنل شجاع خانزادہ پر حملہ کرنے والے دہشت گرد معلوم نہیں کہاں ٹھکانہ کئے ہوئے تھے، ورنہ میں نے تو انہیں چکری کے اپنے "گیسٹ ہاؤسز" سے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا تها ..
بہرحال؛ یہ نیوز کانفرنس تو میں دونوں بڑے "شرفاء" کے حکم پر کر رہا ہوں، ورنہ مجھے کوالیشن اسپورٹ فنڈ میں سے صرف ان کا "جهوٹا" ہی ملا کرتا ہے؛ لائنز شئیر تو تینوں "شریف" ہی لے اڑتے ہیں ..
"الباکستانیو"؛ اب ہم اس طرح کی "پهرتیاں" نہ دکھائیں تو کیا کریں؛ یہ کرنل شجاع خانزادہ کو بهی عین اس وقت مرنا تها، جب "قسط" سر پر آگئی تھی...؟؟؟ ..........
خواتین و حضرات؛ ویسے آپ سب کو اب ہمارے "چیف" صاحب کے عزم و ولولہ میں سے چھلکتی "ہر قیمت" کی ویلیو کا اندازہ تو خوب ہو گیا ہوگا..!!!
مکمل تحریر >>

24 اگست، 2015

MEMOIR

STORY OF DESTRUCTION, DEMOLITION, RECONSTRUCTION AND REHABILITATION:
This is the story of the people living close to the border between India and Pakistan, particularly along the Line of Control (LOC) between Pakistani and Indian Kashmir and Working Boundary between Pakistan and Indian occupied Kashmir. This is my story. This is story of my parents and grand-parents. This started in 1947 and repeated many times afterwards particularly in 1965, 1971 and 1987 and yet continuing. This is a different experience.

1947: My mother's village "Naikowal" went on Indian side of the Working Boundary. I remember during my childhood my mother used to take me along to the new border. She used to recite "Fateha" for her parents (My Nana and Nani) while facing towards the graveyard of her native village and pray for independence of Jammu and Kashmir so that she could go to the graves of her parents. I remember, I used to say Ameen Sum Ameen. I used to remain emotional for years and years and wanted my mother's desire to be fulfilled. I remember I used to raise the slogan "Kashmir Hamara Hai Aur Saray Ka Saraa Hai).
1965: Our village "Raja Harpal" along with many other villages and towns of Sialkot District were occupied by India. They remained under Indian Occupation for more than Six Months. During the occupation the villages had been looted, demolished and burnt. We have to take a new start for reconstruction and rehabilitation.
1971: Another war broke up between India and Pakistan. Our area was got vacated by the Army and we were displaced. After short time we returned and rehabilitated our villages and agricultural lands. This war also resulted into creation of Bangladesh.
1987: Another war was about to start. Our villages were got vacated and once again we were displaced. However, this war was postponed and we resettled in our villages.
The tension between both sides still continues, cross firing starts, people are killed and some times displaced temporarily.
This is our experience of sufferings, agonies and rehabilitation. On the other hand this was a useful experience and taught many meaningful lessons. It made us strong and confident.

1996: I was at the UET Lahore living in House D-5, close to Gate No: 6. A heavy storm water during the rainy season suddenly entered into the eastern part of the UET. Many houses including my house were damaged. My house was most hit as it was first in the way of storm water. A lot of households were damaged and destroyed. The affected people started applying for the grant of Funds for the rehabilitation and buying the new households. I did not apply. One day a high official came to me and asked why I had not applied. I told him this was not a new thing for me. Our properties had been destroyed many times and we had rehabilitated ourselves as first Human on this planet had settled. We were never beggars and my mother had taught me that "beggars are liars". And I can not go against the principles of my mother. However, I thanked him for his concern but he was surprised. I could not understand why he was surprised.
مکمل تحریر >>

پٹواری لیگ کی روایات اور عدالت عظمیٰ کا بالاخانہ..!!

"نون لیگ کی روایات کے مطابق فیصلہ تسلیم کرتے ہیں".. ایاز صادق
لاہور کے انتخابی ٹربیونل کی جانب سے الیکشن 2013 میں حلقہ این اے 122 سے اپنے انتخاب کو کالعدم قرار دئے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کا یہ "ردعمل" ہمیشہ صرف پنجاب کی اکثریت کے بل بوتے پر ملک بھر پر قابض ہونے والی نواز لیگ کی "روایات" سے واقفیت رکھنے والوں کیلئے خاصی دلچسپی کا حامل ہوگا ...
کالعدم اسپیکر صاحب کو اگر "پارٹی پالیسی" اجازت دیتی تو وہ اپنی بات یقیناً کچھ یوں مکمل کرتے کہ 
"ہم نے الیکشن بهی نون لیگ کی روایات کے مطابق دھاندلی سے جیتا تھا اور اب نون لیگ کی روایات کے مطابق الیکشن ٹربیونل کے، دھاندلی نہیں انتخابی مشینری کی ناکامی والے مقبول عام فیصلے کو (سپریم کورٹ سے وابستہ روایتی توقعات کے ساتھ) تسلیم بهی کرتے ہیں ..
پارٹی کی انہی روایات کے عین مطابق اب ہم اپنی زرخرید سپریم کورٹ جا رہے ہیں؛ جہان سے ہمیں بعینہ اسی طرح ریلیف مل جائے گا، جیسے سعد رفیق کے خلاف بالکل اسی قسم کے فیصلے کے بعد فوراً ہی مل گیا تھا ..
مسئلہ اس مرتبہ صرف یہ ہے ہماری سپریم کورٹ کی جانب سے ریلیف ملنے تک کے چند روزہ عبوری دور میں ہمارے قائد نواز شریف نے سعد رفیق کو تو ریلوے کی وزارت میں ہی اپنا مشیر بر وزن وزیر مقرر کر دیا تها؛ جبکہ آئین میں اسپیکر کا ہم وزن کوئی عہدہ سرے سے موجود ہی نہیں، اسلئے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ سے اپنی بحالی تک کی اس عبوری مدت کے دوران مجهے مجبوراً بیروزگار رہنا پڑے گا"...
............ رہے نام اللہ کا..!!
مکمل تحریر >>

پاکستان اور الیکشن میں دھاندلی

پاکستان میں ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی رہی ہے۔ جیتے ہوؤں کو ہرایا جاتا رہا ہے۔ نتیجے تبدیل کئے جاتے رہے ہیں۔ الیکشن سے پہلے فیصلہ کر لیا جاتا رہا ہے کہ کس پارٹی کو کتنی سیٹیں دینی ہیں اور کس کی حکومت بنانی ہے۔ 
کون نہیں جانتا کہ 1988 میں آئی جے آئی کس نے بنائی اور اس کے باوجود پنجاب میں کس طرح اپنی پسند کی حکومت بنائی گئی۔ کون نہیں جانتا کہ 1977 کے بعد سے آج تک جیتنے کے باوجود پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت کس نے نہ بننے دی۔ کون نہیں جانتا کہ کس طرح، کس کس کو اور کس نے اپنی پسند کے سیاستدانوں میں پیسے بانٹے کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف 1990 کا الیکشن جیت سکیں، کون نہیں جانتا کہ پوری حکومتی مشینری پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ کون نہیں جانتا کہ 1993 میں کس نے اور کن نامعلوم طریقوں سے پیپلز پارٹی کی جیتی ہوئی سیٹیں کم کی گئیں اور بینظیر شہید کو ایک کمزور اقتدار دیا گیا اور وہ بھی مجبوری کے تحت۔ اور پھر 1997 کی جادوگری کے پیچھے کون تھا کہ 37 فیصد ووٹ لینے والی پیپلز پارٹی کو صرف 17 سیٹیں دی گئیں اور 36 فیصد ووٹ لینے والی نون لیگ کو لگ بھگ 140 سیٹوں کا تحفہ دیا گیا۔ اور پھر کون نہیں جانتا کہ 2002 میں کیا کیا کھیل کھیلے گئے۔ جب خواہشات کے خلاف پیپلز پارٹی جیتتی جا رہی تھی تو جنوبی پنجاب کے نتیجے 72 گھنٹے تک روک کر بدلے گُیے اور جب اس پر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے تو کچھ فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ مزید کمال دکھائیں، ان فرشتوں میں رینجرز کے جنرل حسین مہدی کا نام نمایاں تھا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹس کے نام سے فارورڈ بلاک بنا کر اپنی پسند کی حکومت بنانے کا بندوبست کر دیا۔ واضع رہے کہ ان میں پنجاب کے، ہاں صرف پنجاب کے 22 ایم این اے شامل تھے۔ ق۔لیگ بنائی گئی۔ اور پھر 2008 کے الیکشن سے پہلے ق۔لیگ کو جتوانے کا پورا بندوبست موجود تھا۔ بینظیر اور نواز شریف کو پاکستان نہ آنے دینے کی تکرار ہو رہی تھی۔ مگر بین الاقوامی قوتوں کے دباؤ پر مجبوراً بینظیر کو آنے دیا گیا اور بینظیر کے مطالبے پر نواز شریف کو بھی آنے دیا گیا۔ مگر بینظیر ناقابل برداشت تھی اسے اپنے پالتو تذویراتی اثاثوں کی مدد سے شہید کروا دیا گیا۔ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی واضع برتری کو ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہوئے کم کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کو 124 سیٹوں تک محدود کیا گیا جبکہ وہ 180 کے لگ بھگ سیٹیں جیت سکتی تھی۔ اب ایک کمزور اتحادی حکومت پیپلز پارٹی کو دی گئی۔ اس کے خلاف ایک طرف پنجاب میں تماشہ جاری رکھوایا گیا اور دوسری طرف عدالت عظمی کے چیپ جسٹس کو پیچھے لگا دیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ بکاؤ میڈیا کو بد ترین کردار کشی کا مشن سونپ دیا گیا کہ جو اب تک جاری ہے۔ پنجاب میں حکومت نون لیگ کی اور تمام الزام زرداری پر۔ واہ کیا کہنے میڈیا کے بقراطوں کے۔

سوال یہ ہے کہ دھاندلی کون کرتا رہا ہے، نتیجے کون بناتا رہا ہے، عوام کے دئیے ہوئے مینڈیٹ کو کون بدلتا رہا ہے؟ مجرم کون ہے؟ آئین پاکستان کی بیحرمتی کون کرتا رہا ہے؟ کیا ان مجرموں کو کبھی سزا ملے گی؟ پاکستان کی کینگرو کورٹس انہیں سزا بھلے نہ دیں، ان سے کوئی امید بھی نہیں ہے کیونکہ یہ فیصلے کرتی نہیں، کہیں سے لکھے لکھائے ہوئے فیصلے سناتی ہیں۔ مگر تاریخ فیصلہ کر چکی ہے اور ان سب کو مجرم قرار دے چکی ہے۔ 
اب 2013 کی دھاندلی کی بات کچھ مختلف ہے۔ اس الیکشن میں خصوصا" پنجاب اور کے پی کے ہر حلقے میں دھاندلی ہی دھاندلی ہے۔ میڈیا کی بکواس کے ذریعے ایک فضا ضرور بنائی گئی۔ لہاذہ کے پی کے میں پی ٹی آُیی کی حکومت بھی جعلی ہے اور مرکز میں نون لیگ کی حکومت بھی جعلی ہے۔سوال یہ ہے کہ دھاندلی کس نے کی؟ سیدھا سا جواب ہے کہ انہوں نے ہی کی جو ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔ لیکن اس بار ان کی مرضی کچھ اور تھی مگر ان کے بین الاقوامی آقاؤں کا حکم کچھ اور تھا جس پر ان دھاندلی کے ماہرین کو با دل نخواستہ عمل کرنا پڑا اور بیشمار بے ضابطگیاں سر انجام دی گئیں تا کہ بوقت ضرورت کام آئیں۔ 
ہمارا مطالبہ ہے کہ دھاندلی کرنے والوں کو عبرتناک سزا دی جائے اور ان مجرموں کو تاریخ میں ایک مثال بنا دیا جائے۔ کاش کہ ایک بار پاکستان میں ایک غیرجانبدار ماحول میں دھاندلی کے بغیر الیکشن ہونے دئیے جائیں۔
مکمل تحریر >>

22 اگست، 2015

جنرل حمید گل اور چرسی لابی

شیعہ مکتبہ فکر بنیادی طور پر دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو ان کے اہل علم و دانش پر مشتمل ہے۔ آپ اس حلقے کی زبان سے کبھی بھی گالی یا غیر شائستہ بات نہیں سن پائینگے۔ یہ خاموشی اور رواداری سے اپنا کام کرتے ہیں اور بالعموم سیاست کے جھمیلوں سے دور رہتے ہیں۔ شیعہ عوام کی اکثریت بھی اسی حلقے سے جڑی رہتی ہے اور ہر طرح کے تنازعات سے دور رہ کر اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جو حشیشیوں اور چرسیوں پر مشتمل ہے۔ یہ اہل علم و دانش کے بجائے ان ذاکرین کا پیرو کار ہے جو ہر سال واقعہ کربلا کا نیا ورژن سامنے لاتے ہیں اور جنہوں نے اس حوالے سے اتنی تحریفات کر رکھی ہیں کہ عیسائیوں کی بائبل بھی انگشت بدنداں ہے۔ اس گروہ کی صدیوں سے ایک ہی پہچان ہیاور وہ ہے "گالی" جو ان کے ہاں عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ گالیوں کے حوالے سے بھی ان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ گد کی طرح اپنے شکار کے مرنے کا انتظار کر تے ہیں۔ ادہر اس کی جان نکلی اور ادہر یہ اس پر پل پڑے۔ اس حوالے سے اس گروہ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت تقریبا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو نہیں بخشا تو جنرل حمید گل کیا چیز ہے۔ آپ یقین کیجئے میرا شیعہ اہل علم کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔ وہ ان چرسی ذاکرین اور ان کے پیرو کاروں کو ہم سے زیادہ ناپسند کرتے ہیں۔ میں ان کے لئے "چرسی" کا خطاب کسی طنز یا غصے کے سبب استعمال نہیں کر رہا بلکہ مجھے کئی شیعہ علماء بتا چکے ہیں کہ یہ ذاکر چرس پیئے بغیر کبھی بھی مجلس نہیں پڑھتے اور ان کی سب و شتم میں چرس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
اس گروہ کو جنرل حمید گل سے شکایت یہ ہے کہ سپاہ صحابہ (میں یہی نام استعمال کرتا ہوں) کے رہنماء مولانا محمد احمد لدھیانوی کو انہوں نے خود سے بہت قریب رکھا تھا۔ اگر اس قربت کا نتیجہ یہ نکلا ہو کہ یہ جماعت زیادہ متشدد بن کر ابھری ہو تو پھر اس گروہ کی شکایت بجا لیکن اگر اس قربت کے نتائج آج لوگوں کے سامنے اس شکل میں موجود ہیں کہ سپاہ صحابہ "کافر کافر۔ شیعہ کافر!" کا نعرہ ترک کر چکی ہے اور اپنے ورکرز کو سمجھا چکی ہے کہ یہ نعرہ نہ جلسوں میں لگے گا اور نہ ہی جلوسوں میں حتیٰ کہ وال چاکنگ اور سٹیکرز سے بھی یہ نعرہ غائب ہو چکا ہے تو کیا یہ برا ہوا ہے؟ اسی طرح اگر اس قربت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج اگر کسی امام بارگاہ پر دہشت گردی ہوتی ہے تو سپاہ صحابہ اس کی کھلے عام مذمت کرتی ہے تو کیا یہ غلط ہوا ہے؟ اگر اس قربت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سپاہ صحابہ خود کو لشکر جھنگوی سے مکمل طور پر الگ تھلگ کر چکی ہے اور لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق نے اس کے رد عمل میں سپاہ صحابہ پر قبضہ کر کے محمد احمد لدھیانوی کو بیدخل کرنے کی سرتوڑ مگر ناکام کوششیں کیں تو یہ معمولی بات ہے؟ اگر اس قربت کے نتیجے میں سپاہ صحابہ ایک متشدد جماعت سے ایک ایسی تنظیم میں ڈھل گئی ہے جس کی جد و جہد کا مرکزی پوائینٹ یہ ہے کہ نفرت انگیز لٹریچر اور زبان کے سد باب کے لئے آئین و قانون میں ترامیم کی جائیں تو کیا یہ غیر معقول اور معمولی تبدیلی ہے؟؟؟
اسی گروہ کی جانب سے شکر گڑھ کی زمینوں کا ایک سکینڈل اچھالا جا رہا ہے جس کا لنک کچھ دوست بار بار میری پوسٹوں پر پیسٹ کر دیتے ہیں۔ اللہ کے بندو اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر اس سکینڈل میں ذرا بھی جان ہوتی تو جنرل مشرف اسے استعمال نہ کر چکا ہوتا؟ سی این این اور بی بی سی اسے صبح و شام نہ اچھال رہے ہوتے؟ حامد میر اور سلیم صافی اس پر چٹخارے دار پروگرام نہ کر چکے ہوتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ متاثرین افتخار چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ کا دروازہ نہ کھٹکھٹا چکے ہوتے؟ ایک چھیتڑے نے یہ بکواس شائع کردی اور آپ چونک اٹھے۔ سلام ہے آپ کے فہم کو!!!
مکمل تحریر >>

ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہئے ..؟؟

"نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد نہیں ہو رہا"؛ آرمی چیف اور وزیرِ اعظم کا (غالباً مودی اور را سے) گلہ ...
نیشنل ایکشن پلان کے ڈائریکٹر راحیل شریف اور پروڈیوسر نواز شریف بهی ملک میں امن و امان کے ذمہ دار وزیر خارجہ چودھری نثار کے نقش قدم پر چل پڑے؛ جو چند ماہ پہلے پوپلے منہ کے ساتھ، پتہ نہیں کس سے، مسلسل شکوہ کرتے نظر آتے تھے کہ "حکومت امن و امان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہے"...
نیشنل ایکشن پلان کے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف دونوں بااختیار "پردهانوں" میں سے کوئی ایک دوسرے سے جواب طلب کرتا کہ "پلان پر عمل کیوں نہیں ہو رہا؟" تو بات کچھ سمجھ میں آ بهی جاتی؛ یہ دونوں عمل در آمد میں ناکامی کا گلہ بهلا کس تیسرے سے کر رہے ہیں..؟؟
ہے کوئی جو "شرفاء" نامی اس عجیب الخلقت "مخلوق" سے جا پوچھے کہ "حضور؛ نفرت انگیز لٹریچر کی اشاعت روکنے اور مدارس کو آپ کے مرتب کردہ ضابطہ کار کا پابند کرنے کیلئے اب قوم کو سی آئی اے، موساد، ایم فائیو یا پھر کسی را کی خدمات حاصل کرنا پڑے گی..؟؟
لیجئے؛ ایک اور "نابغہ" بهی اب میدان میں ...
ائیر چیف صاحب کو آرمی چیف کی ریس (سرائیکی میں) آگئی ..آئی ایس پی آر کی طرف سے ٹی وی چینلز پر، روزانہ کے حساب سے درجنوں دہشت گردوں کی ہلاکت کیلئے اپنے زیرِ تحویل جیٹ طیاروں کے استعمال کے باوجود میڈیا پر سارا "کریڈٹ" آرمی چیف کو جاتا دیکھ کر رہ نہ سکے اور جا بیٹهے ایک جیٹ کے کاک پٹ میں؛ 
ٹی وی چینلز کیلئے ذرا سی اڑان بهری اور "پریس ریلیز" کے ذریعے شمالی وزیرستان میں درجنوں بلکہ سینکڑوں بار تباہ کئے گئے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں" کو ایک بار دوبارہ "نیست و نابود" کر دکهایا ..
ویسے آپس کی بات ہے؛ ہمارے ائیر مارشل صاحب "ہیرو" جنرل سے تھوڑے سے سمجھ دار ہی ثابت ہوئے ہیں، جو دہشت گردوں سے کب کے خالی وزیرستان میں دو سال سے جاری "ضربِ عضب" کے ذریعے آئے روز سینکڑوں دہشت گردوں کی "بذریعہ پریس ریلیز ہلاکت" کا کریڈٹ لینے کے عادی چلے آ رہے ہیں ...
بهائی لوگو؛ جب آپ دہشت گردوں کو جنوبی پنجاب کی بجائے شمالی وزیرستان میں ڈھونڈتے پهرو گے تو نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کون مکمل کرائے گا..؟
جب آپ لال مسجد کے ملا بُرقعہ پوش کو وارنٹ گرفتاری کے باوجود، دہشت گردوں کی بھرتی کیلئے کهلا چهوڑ دوگے اور کالعدم تنظیم کے سربراہ حافظ سعید کے حکم پر انڈین فلموں پر پابندی لگاتے رہو گے تو نفرت انگیز مواد کی اشاعت و ترویج کیونکر روکی جاسکے گی..؟
اور جب آپ خطرناک ترین دہشت گرد ملک اسحاق کے اعتراف جرم کے باوجود اسے عدالت سے سزا سنوانے کی بجائے، اس سے چھٹکارہ پانے کیلئے جعلی پولیس مقابلے کا سہارا لینے پر مجبور دکهائی دوگے تو مدارس کو ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑاتے کا موقع تو ملے گا نا ...
نہ سمجهو گے تو مٹ جاو گے "الباکستان" والو
تمہاری داستاں تک بهی نہ ہوگی داستانوں میں
مکمل تحریر >>

20 اگست، 2015

بیمار قوم کا علاج؛ قانون فطرت کی روشنی میں ..!!

قومیں جب موت و زوال کے چکر میں آجاتی ہیں تو کسی کو نہیں سوجهتا کہ خرابی کہاں پر ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ "اگر اس کائنات فطرت میں ہر جسم کا زوال اس لئے ہے کہ اس جسم کے مختلف حصوں نے اپنا اپنا عمل چھوڑ دیا ہے تو قوم کے جسم کا زوال بھی لازماً اسی وجہ سے ہے"۔
یہاں یہ امر ملحوظ رکھنا ہوگا کہ ایک قوم کس وقت "قوم" کہلانے کی مستحق ہوتی ہے اور کس وقت کثرتِ افراد کے باوجود وہ قوم، قوم نہیں ہوتی۔ گویا محض افراد کی موجودگی قوم ہونے کی دلیل نہیں اور یہی وہ بنیادی بات ہے جس پر ہمارے کسی دانشور نے کبھی بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی؛
لیکن علامہ المشرقیؒ کے نزدیک قوم کا تصور افراد کی اندر عدم مرکزیت اور عدم تنظیم کی حالت میں نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک عدم مرکزیت کا فقدان ہی تمام تر معاشرتی بگاڑ اور سماجی برائیوں کا اصل باعث ہوتا ہے۔ 
جب افراد ایک نظام کی لڑی میں پروئے ہوتے ہیں اور ہربات اجتماعی نقطہء نظر سے سوچتے اورکرتے ہیں، تو ایسے منظم اور ہم آہنگ افراد کی ہیئت اجتماعیہ ہی قوم کہلاتی ہے۔ غیرمنظم اور منتشر افراد کی سوچ اپنی اپنی غرض اور اپنی اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے۔ ایسے افراد کا ہجوم قوم نہیں ہوتا۔ ان کی ذاتی اغراض اور انفرادی سوچ ہی سے نفسا نفسی اور قیامت کا سماں پیدا ہوتا ہے جس میں بیٹے کو باپ اور بھائی کو بھائی کا پاس و لحاظ نہین رہتا۔ خود غرضی اور مفاد پرستی کا یہ ماحول ہی وسیع بگاڑ کا اصل سبب ہوا کرتا ہے۔
اوریہ بات اصولی طورپر درست ہے کہ ایسے خود غرض اور بکھرے ہوئے افراد کی اصلاح کے لئے کسی شرعی یا غیر شرعی قانون کے نفاذ اور کسی انتخابی ہنگامہ آرائی کی نہیں، بلکہ انہیں مناسب خطوط پر منظم کرنے اور تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ ایک قوم بن سکیں اور قومی نقطہء  نظر سے سوچنے کے قابل ہوسکیں۔
علامہ المشرقیؒ نے اس مقصد کے پیش نہاد ابتدائی جماعت بندی کا سلسلہ جاری کیا۔ ایک نظام کی داغ بیل ڈالی اور اسے محلے کی سظح سے لیکر شہری، ضلعی اور ملکی سطح پر وسعت دے دی۔ علامہ محترم نے اس تنظیم و نظام میں شامل ہونے والے افراد کو چندہ لیکر رکنیت دینے کے بجائے انہیں روزمرہ کا کام دیا۔ حرکت کو جاری رکھنے کے لئے ایک محلہ وار سطح پر پروگرام دیا؛ ظاہر ہے کہ جو فرد ایک آواز اور ایک حکم پر کچھ نہ کچھ حرکت شروع کردے وہ کچھ عرصہ بعد اس جماعت کا ہی ہوکر رہ جاتا ہے؛ افراد کے اندر یہ خوبی پیدا کرنا ہی بنیادی کام ہے، جو نصیحت، وعظ اور تلقین یا کسی اور طرح سے پیدا نہیں ہوسکتی۔ 
اسلئے اصلاح احوال کے مروجہ گول مول اور بے نتیجہ طریقوں کو عرصہ دراز تک دیکھنے کے بعد یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ قوم اور قومی یکجہتی اتحاد و عمل کے بغیر ناممکن ہے اور اتحاد و عمل ایک تنظیم کی وساطت سے ہی بنائے جاسکتے ہیں۔ جب جا کر کسی بہتر نتیجے کی توقع ہوسکتی ہے۔
آپ حضرات یقیناً اتفاق کریں گے کہ پورا عالمِ اسلام اور پاکستان میں ایک بڑی خرابی اجتماعیت اور نظم و ضبط کا فقدان ہے۔ جس قوم کے افراد میں اجتماعیت اور نظم و ضبط نہیں، وہ سرے سے قوم ہی نہیں۔ وہ محض بے ہنگم افراد کی بھیڑ ہوتی ہے جس کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ عدم رابطہ کی وجہ سے اعتماد باہمی کی فضا پیدا نہیں ہوتی۔ 
نظم و ضبط اور اجتماعیت تربیت اوراطاعت سے پیدا ہوتے ہیں؛ جس طرح ملٹری اکیڈیمی میں لباس درست طور پر پہننے، تسمے ٹھیک طرح کسنے، آستینیں ٹھیک طور پر چڑھانے، ٹوپی ٹھیک طور پہننے اور قدم ایک ساتھ اٹھانے سے اطاعت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور جس طرح اسلام نے بھی ایک ہی طرح ہاتھ منہ دھونے، ایک ہی طرح صف بندی کرنے، ایک ہی وقت پر ایک امام کے پیچھے ایک ہی حرکت کرنے سے افراد متعلقہ میں اطاعت اور نظم ضبط پیدا کرکے حیران کُن نتائج پیدا کردئیے تھے۔ 
اس تخیل کے تحت المشرقیؒ نے بھی ایک مخصوص لائحہء عمل رائج کرکے ملت کے ایک عنصر کے اندر اجتماعیت اور نظم ضبط اور اطاعت کا قابلِ تعریف اخلاق پیدا کردیا تھا۔
لیکن تربیت اور اخلاق ناول نویسی، ڈرامے بازی اور قانون سازی سے ممکن نہیں؛ تفسیریں، تقریریں اور شعروں سے بالکل ممکن نہیں اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ المشرقیؒ نے صرف چند سال میں قوم کے اندر نظم و ضبط اور اجتماعیت کا جو نمونہ اور اطاعت کا بلند ترین اخلاق پیدا کردیاتھا؛ اس کا پچاسواں حصہ بھی کوئی بڑی سے بڑی پرہیز گار اور سیاست باز پارٹی گذشتہ 68 سالوں میں بھی پیدا نہ کرسکی۔
آج ملک اور قوم کی اصلاح و تعمیر کے لئے اس کیریکٹر کا تصور پایا جاتا ہے کہ سچ بولا جائے، ملاوٹ نہ کی جائے، جھوٹی شہادت نہ دی جائے، چوری چکاری اور غنڈہ گردی سے اجتناب کیا جائے؛ لیکن ایسا کریکٹر نظم و ضبط اور حرکت کے کس فارمولے پر عمل اورمناسب تربیت کے بدوں پیدا نہیں ہوسکتا۔
اس زمین کے اور کسی قوم کے بگڑے ہوئے معاشرے کے سدھار کے متعلق جس بھی مصلح نے سوچا؛ اس نے سب سے پہلے انسانوں کی درستگی پر توجہ دی۔ انسانوں کے اجتماعی کریکٹر کی تشکیل پر کام کیا۔ انسانوں کی خود سری اور خود رائی کو ختم کر کے انہیں اطاعت سکھائی. جس لیڈر نے زمین کے کسی خطے پر قیام حکومت کا منصوبہ بنایا، اُس نے سب سے پہلے عوام میں اپنے ڈھب کو بنایا، اپنی بات سننے اور ماننے کے لئے تیار کیا۔ ان کی سوچ کا رُخ انفرادیت سے ہٹا کر اجتماعیت کی طرف موڑ دیا۔ عوام کو ان کے حقوق وفرائض سے آگاہ کیا۔ انہیں معاشرتی آداب سکھائے اور پھر جب ان تربیت یافتہ عوام کی حکومت قائم ہوئی تو انسانی معاشرہ عدل و انصاف کی خوش گواریوں سے چھلک اٹھا۔ اِن میں قاضی چنے گئے تو انہوں نے انصاف کو مقدم رکھا، وکیل بنائے گئے تو قانون کا بول بالا ہوا، پولیس والے بنائے گئے تو عوام کی جان و مال کے محافظ بنے۔ ڈاکٹر بنے تو دُکھی انسانیت کا سہارا بنے، کاروباری بنے تو دیانت دار، ملازم بنے تو وفادار، مزدور بنے تو ایمان دار۔
ملک پاکستان کے اندر وہ تمام برائیاں جو آج پورے عروج پر ہیں، یہ بغیر کسی وجہ جواز کے نہیں؛ اب ہمارے معاشرے میں عزت کا معیار کسی عملی صلاحیت پرنہیں بلکہ دولت اور اس کی فراوانی پر ہے.. ظاہر ہے کہ اس معیار کو قائم رکھنے کے لئے جائز اور ناجائز میں امتیاز کی ضرورت نہیں، روپے کی ضرورت ہے؛ یہی رجحان تمام بیماریوں کی بنیادی جڑ ہے.. اس نے ہی معاشرے میں طبقاتی ناہمواری اور لاقانونیت کا جنم دیا ہے۔
علامہ المشرقیؒ نے اس بیماری کو شروع سے ہی بھانپ لیا تھا؛ انہوں نے اس کے سدباب کے لئے اوپر سے نیچے تک خاکی لباس پہننے کی شرط عائد کردی، ہر چھوٹے بڑے ہر ادنی ٰ و اعلیٰ کے کندھے پربیلچے کا شرمندہ کن اوزار رکھ کر سب کے عمل کا ایک معیار مقرر کردیا۔ اس طرح معاشی تفاخر اور سٹیٹس کی تمام بک بک سرے سے ہی ختم کر دی۔ 
یہی حکمت عملی ماؤے تنگ نے بھی اختیار کی اور ساٹھ کروڑ چینوں کو یکساں لباس پہنوا کر عام مساوات کا ماحول پیدا کردیاتھا۔ لہٰذا آج بھی ہمیں عدم مساوات کے بھڑکتے ہوئے جہنم کو ٹھنڈا کرنے کے لئے المشرقیؒ کی تجویز و تدبیر سے استفادہ کرنا ہوگا۔
بشکریہ: رشید ملک ایڈووکیٹ مرحوم (ادارہ معارفِ افکار المشرقیؒ گجرات)
مکمل تحریر >>

19 اگست، 2015

روز جیتا، روز دفن ہوتا نظریہء ضرورت..!!

 یقین جانئے؛ ہماری عدلیہ جنگل کے بادشاہ کی طرح "آزاد" ہے؛ جب چاہے انڈا دے، جب چاہے بچہ۔
فاتح کابل حمید گل کی سورگباشی کے فوراً بعد ملک میں دہشت گردی کے اس سب سے بڑے امپورٹر کے عسکری شاگرد کرنل شجاع کی اپنے استاد کی روحانی اولاد کے ہاتھوں شہادت؛ اور امیرالمنافقین کے جبڑے کی 27 ویں برسی جیسی "ہنگامہ خیز" خبروں میں دب کر رہ جانے والی ایک اہم خبر شاید ہم میں سے بہت سوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ..
ہوا کچھ ہوں کہ چند روز قبل ہی فوجی عدالتوں کے قیام بارے آئینی ترمیم کے خلاف دائر رٹ پٹیشن کو مسترد کر کے "بنیادی انسانی حقوق" جیسی آئینی مبادیات (ناقابل تنسیخ بنیادی اصول) کی تشریح کا اختیار منتخب پارلیمان کو دینے والی عدالت عظمیٰ نے، اب فوجی عدالتوں کے حق میں اپنے مذکورہ حالیہ فیصلے سے مکمل "یوٹرن" لیتے ہوئے، انسانی حقوق کی معروف ایکٹویسٹ عاصمہ جہانگیر کی ایک آئینی درخواست آئین کی انہی "مبادیات" کا سہارا لیتے ہوئے خارج کر دی ہے ..
یاد رہے کہ عاصمہ جہانگیر نے اپنی آئینی پٹیشن میں عدالت سے ملک بهر میں بڑهتی ہوئی "مذہبی انتہا پسندی" کے پیش نظر پارلیمنٹ کی طرف سے ملک کو سیکولر ڈیکلئر اسٹیٹ ڈیکلئر کرانے کی استدعا کی تهی، جسے عدالت عظمیٰ نے اٹھارویں ترمیم بارے خود اپنے حالیہ فیصلے میں رد کی گئی مبادیات کو ازسرِنو زندہ کرکے، معاملہ اس پارلیمنٹ کو بھیجنے کی بجائے خود مسترد کر دیا، جسے یہی عدالت چند روز قبل آئینی امور بارے "فائنل اتھارٹی" قرار دے چکی ہے ..
حالانکہ عاصمہ جہانگیر کی درخواست تو بانئی پاکستان کی جانب سے مملکت کی پہلی آئین ساز اسمبلی کیلئے 11 اگست 1947 کی اپنی معروف تقریر میں فراہم کردہ اس "گائیڈ لائن" کی روشنی میں بهی ازحد اہمیت کی حامل ہے، جس میں بابائے قوم نے ملک کی آئینی اساس کو واضح طور پر "سیکولر" ڈیکلئر کر دیا تها ...
خواتین و حضرات؛ ملک کی سب سے بڑی یہی عدالت حال ہی میں مادر پدر آزادی کا ایک اور شرمناک مظاہرہ اس وقت کر چکی ہے، جب اس نے ملک کی دو مرتبہ منتخب وزیراعظم اور ملک کی ایک بڑی پارٹی کی سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی عوامی اجتماع میں سرعام شہادت کے مقدمے کو "مفاد عامہ" کا کیس ماننے سے انکار کرتے ہوئے، شہید رہنما کی اپنی وصیت کے مطابق سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل اور سابق ایم آئی چیف بریگیڈیئر اعجاز شاہ کی اس کیس میں نامزدگی کی درخواست مسترد کردی ...
قارئین کرام؛ افتخار چوہدری کی مادر پدر آزاد عدلیہ کی جانب سے آئین کے ساتھ حسبِ مراتبِ سائل، بے حیائی پر مبنی اس نوعیت کے مسلسل کھلواڑ کے بعد شہرہ آفاق "نظریہء ضرورت" بهی اب چلا چلا کر پکارنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ
روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں
کاش پوچھو کہ "بپتا" کیا ہے
مکمل تحریر >>

حریف کی گواہی

میں نے بارہا یہ بات کہی اور لکھی ہے کہ پاکستانیت میرے لئے مسلک کا درجہ رکھتی ہے۔ جنرل حمید گل اس مسلک کے امام تھے جن کی ریٹائرمنٹ کے بعد والے 23 میں سے بیس برس میں ان کے بیحد قریب رہا۔ اس قربت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ میں ان کے فیملی سے باہر کے ان تین لوگوں میں سے ایک ہوں جنہیں وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ ڈائیننگ ٹیبل پر شریک کر لیا کرتے تھے۔ انتقال سے صرف ایک روز قبل یعنی چودہ اگست کی شام برادرم سیف اللہ خالد کی کال آئی کہ جنرل صاحب تمہارا پوچھ رہے ہیں۔ وہ جب بھی مجھ سے رابطے کی کوشش کرتے اور کسی وجہ سے نہ ہو پاتا تو سیف اللہ خالد سے میری خیریت پوچھ لیا کرتے جس کی وہ مجھے اطلاع کردیا کرتے اور میں رابطہ کر لیتا۔ چودہ اگست کو بھی میں نے کال کی لیکن وہ مری میں تھے جہاں ان سے ٹیلیفونک رابطہ سگنلز کے مسائل کے سبب ہمیشہ بہت مشکل سے ہوتا۔ میری بدقسمتی کہ اس روز بھی رابطہ نہ ہوسکا۔
جنرل حمید گل مرحوم تھے تو پاکستان آرمی کی آرمڈ کور سے لیکن ان کی زندگی کا غالب ترین حصہ ایک نامور "سپائی لیجنڈ" کی حیثیت سے گزرا۔ مشکل یہ ہے کہ اس حیثیت میں ان کی زندگی کا صرف وہ حصہ صرف نہیں ہوا جو وردی میں تھا بلکہ بعد کی زندگی بھی حکمت عملی کی تبدیلی کے ساتھ کچھ یوں اسی حوالے سے رہی کہ وہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے فکری و عسکری رہنماء تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد والی زندگی میں انہوں نے دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کو کبھی بھی کسی طاقت کے مفادات پر حملوں کے لئے نہیں اکسایا۔ وہ صرف اور صرف ان مسلمانوں کی مدد کرتے جنہیں کسی بیرونی حملہ آور کا سامنا ہوتا۔ اور اس معاملے میں اس حد تک چلے جاتے کہ 2006ء کی حزب اللہ اسرائیل جنگ کے دوران وہ کئی ہفتے ایران میں رہے جہاں سے جنگ کے اختتام پر واپس لوٹے۔
بہت کم لوگ اس بات کو سمجھ سکے کہ جنرل مشرف کا نعرہ "سب سے پہلے پاکستان" عین اس وقت سامنے آیا جب جنرل حمید گل سے ان کا ٹاکرا عروج پر پہنچ گیا۔ مشرف کا یہ نعرہ درحقیقت حمید گل کے نظریئے کو توڑنے کے لئے سامنے آیا تھا جو ریاست اور میڈیا کے تمام وسائل بروئے کار لانے کے باوجود بری طرح پٹ گیا اور اب جنرل مشرف بھی اپنے اس نعرے کو ترک کر چکا۔ آج جنرل مشرف کی نظریاتی شکست اس درجے کو پہنچ چکی ہے کہ جنرل حمید گل کے مخالفین اپنا نظریہ منوانے میں ناکامی کے نتیجے میں ان کی لاش کو گالیوں اور طنز کے تیروں سے نشانہ بنانے پر اتر آئے ہیں۔ کیا سلیم صافی کو الیکٹرانک میڈیا پر جنرل مشرف نے متعارف نہیں کرایا تھا؟ کیا وہ جنرل مشرف کے دور میں پی ٹی وی پشاور سے ٹاک شو نہیں کرتے تھے؟ اور کیا پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے ٹاک شوز فقط حکمرانوں کی پالیسیوں کو فروغ دینے کے لئے نہیں ہوتے؟ کیا یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ جنرل حمید گل اور جنرل مشرف میں سے کس نے پاکستان کو تباہی سے دوچار کیا؟
جنرل حمید گل روس کے خلاف لڑے گئے افغان جہاد۔ کشمیر کی آزادی کے لئے لڑے گئے کشمیر جہاد اور دنیا کے چوالیس ممالک کے خلاف لڑے گئے افغان طالبان کے جہاد کے ہیرو ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ ان تینوں جہادی تحریکوں کے وابستہ افراد نے کب اور کہاں پاکستان کے مفادات پر کوئی حملہ کیا؟ پاکستان پر حملے صرف ان درندوں نے کئے جو "سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ لگانے والوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے اور جن کا ان تینوں جہادی تحریکوں سے دور پار کا بھی کوئی رشتہ نہ تھا۔
جنرل مشرف کی سوچ نے نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور فضل اللہ کو جنم دیا۔ افغان جہاد کے آغاز پر نیک محمد صرف چار سال کا تھا اور جب جہاد اختتام کو پہنچا تو وہ چودہ برس کا تھا۔ جب افغان جہاد شروع ہو رہا تھا تو بیت اللہ محسود پانچ سال کا تھا اور جب افغان جہاد ختم ہوا تو وہ پندرہ سال کا تھا۔ حکیم اللہ محسود افغان جہاد شروع ہونے سے ایک ماہ قبل پیدا ہوا اور جب یہ جہاد ختم ہوا تو وہ دس سال کا تھا۔ فضل اللہ بھی افغان جہاد کے آغاز پر صرف پانچ سال کا تھا اور جب جہاد مکمل ہوا تو وہ پندرہ سال کا تھا۔
جنرل حمید گل نے افغان جہاد میں مولانا یونس خالص، پروفیسر برہان الدین ربانی، گلبد الدین حکمتیار، عبدالرب رسول سیاف، نبی محمدی،پیر احمد شاہ گیلانی، صبغت اللہ مجدی، احمد شاہ مسعود، جلال الدین حقانی اور ارسلان خان رحمانی کی سرپرستی کی۔ کوئی بتا سکتا ہے ان لوگوں نے پاکستان پر کتنے حملے کئے؟ اسی طرح کشمیر جہاد کے حوالے سے جنرل حمید گل کے فیض یافتہ سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ، یاسین ملک، عبد الغنی لون، آسیہ اندرابی، حافظ سعید، فاروق کشمیری، گل زرین، سید صلاح الدین، سجاد افغانی اور مشتاق زرگر رہے کوئی ہے جو ان پر پاکستان پر حملوں کی فرد جرم پیش کر سکے؟
نائین الیون کے بعد افغانستان پر حملہ ہوا تو جنرل حمید گل نے اس جہاد میں ڈنکے کی چوٹ پر افغان طالبان کی حمایت کی جس کی قیادت میں ملا عمر، ملا داداللہ، امیر خان متقی، ملا اختر عثمانی، ملا منصور، ملاعبد الرزاق، ملا حسن، ملا احمد زئی، ملا ضعیف، ملا برادر، سراج الدین حقانی، ذبیح اللہ مجاہد اور طیب آغا شامل تھے۔ کیا ان میں سے کسی نے یا ان کے ورکرز نے کبھی پاکستان پر ایک بھی حملہ کیا؟ اور حملہ بھی چھوڑیئے پاکستان کے خلاف اخباری بیان تک دیا؟ آپ یہ مانے بغیر رہ ہی نہیں سکتے کہ اس خطے میں عسکریت کی دو طرح کی تحریکیں پیدا ہوئیں ایک وہ جو افغانستان پر روسی حملے کے نتیجے میں پیدا ہوئی اور دوسری وہ جو جنرل مشرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ فیصلہ آپ کر لیجئے کہ ان میں سے پاکستان کی دشمن کونسی تھی اور پاکستان کی دوست کونسی؟ اگر اب بھی آپ نے جنرل حمید گل کو ہی گالی دینی ہے تو شوق سے دیجئے کہ یہ گالی ہی ان کی کامیابی کی گواہی ہے اور حریف کی گواہی سب سے معتبر سند کا درجہ رکھتی ہے!!!
مکمل تحریر >>

18 اگست، 2015

INFORMATION, KNOWLEDGE AND WISDOM

These three words are closely interconnected and in continuation of one followed by the next one. Information is merely a collection of data through different means. These include observations, past literature, questionnaires and interviews etc. These days, there are heaps of information on Internet. Sometimes a person is confused which website be selected and which not. Therefore, first of all, one must be aware on relevance of the required information and establish an approach based on neutrality and impartiality. Due to complexity of available information it is said that "KNOWLEDGE IS LOST IN INFORMATION". Some people having information and information alone start claiming or believing that they have become scholars and philosophers having ultimate knowledge. But "INFORMATION IS NOT KNOWLEDGE".
Knowledge is derived from impartial analysis of information. Initially, a person having numerous information becomes proud of being most knowledgeable. But if he continues his journey forward for learning more and more and when he reaches a point to realize that "He does know nothing" and there is a vast world of knowledge which he is totally unaware of or is ignorant about many many areas of knowledge or in other words he knows that he does not know. That is the stage where he actually STARTS LEARNING. Then he reviews his collected information and starts knowing more and adequately deriving knowledge from the information and the journey continues.
There is a variety of Knowledge and some times there are heaps of knowledge. But KNOWLEDGE IS NOT WISDOM. That is why it is said that "WISDOM IS LOST IN KNOWLEDGE". Then what is wisdom? Wisdom is true application of knowledge, standing bravely in accord to the requirements of knowledge. Knowledge is power and can be misused by the evil genius in the wrong direction for personal and immediate benefits. True wisdom demands sacrifices and sacrifices equipped with knowledge leads to a high quality of Revolution and Revolution and Revolution. Therefore Knowledge is power but also equipped with Physical Courage or Bravery. True wisdom does not consider its personal losses or benefits. Its destination is much higher. Thus information, knowledge and wisdom are interconnected in a continuous and straightforward path.
(Inspired from the story of Saul and Goliath described in the Holy Quran 2: 246-252 and particularly from 2:247 "Indeed, Allah has chosen him (Saul or Hadhrat Taloot a.s.) over you and has increased him abundantly in knowledge and stature (physical courage)".
مکمل تحریر >>

17 اگست، 2015

ملک اسحاق کے بدلے کرنل شجاع..!!

وزیر داخلہ پنجاب کے خون ناحق کی ذمہ داری مادر پدر آزاد عدلیہ، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور صوبائی وزیر قانون کے سوا کس پر عائد ہوتی ہے ...؟؟
چھوٹے میاں کی جانب سے چند سال پہلے اپنے پروردہ طالبان کو "ہمارا تمہارا ایجنڈہ ایک" کی یقین دہانی کے ساتھ "ہمارے صوبے کو معاف رکهئے" کی اپیل کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کارروائیوں سے اب تک عملاً محفوظ چلے آ رہے صوبہ پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی، اٹک میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں شہادت کی خبر نے ہمیں شریف برادران، مادر پدر آزاد عدلیہ اور رانا ثنائاللہ کے مربی ملک اسحاق کی چند روز قبل مظفر گڑھ میں پولیس مقابلے میں ہلاکت کی کہانی کے علاوہ اس وقوعہ کے ایک آدھ دن بعد لاہور کی ایک نیم پوش آبادی میں واقع ایک دیوبندی مدرسہ کے نائب مہتمم کے یہ الفاظ بھی یاد کرا دیئے کہ "میاں برادران نے مولانا ملک اسحاق کو پولیس مقابلے میں مروا کر ہمارے ساتھ بہت بڑا دهوکہ کیا ہے"..
قارئین کرام؛ ملک اسحاق وقوعہ کے بعد میں نے میاں برادران کو ٹی وی چینلز پر جب بھی دیکھا، ہر دو کا چہرہ موت کے خوف سے زرد ہی پایا، جسے یار لوگ خاکیوں کے ساتھ جاری ان کی چپقلش کا شاخسانہ قرار دیتے رہے؛ جبکہ میرے نزدیک اپنے پالتو دہشت گردوں کی طرف سے ملک اسحاق کے قتل پر متوقع انتقامی کارروائی کا خوف اس پژمردگی کی اصل وجہ رہا ..
اس پس منظر میں خواتین و حضرات؛ چند روز قبل پنجاب کابینہ کے اجلاس کی کارروائی بارے اس رپورٹ پر غور کرنا ضروری بن جاتا ہے، جس کے مطابق کرنل شجاع، رانا ثنائاللہ پر وزارت داخلہ کے امور میں مداخلت کے الزام لگاتے رہے جبکہ رانا ثناء کرنل پر نااہلی کے جوابی الزامات؛ اور بالآخر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو صوبہ کے داخلی امور آئندہ براہ راست اپنی نگرانی میں لینے کا اعلان کرنا پڑا؛ 
جی ہاں؛ دونوں صوبائی وزراء کے مابین تنازعہ کی بنیاد "ملک اسحاق ایپی سوڈ" کے علاوہ کوئی اور کم از کم میری سمجھ میں تو نہیں آرہی ..
اندریں حالات؛ میاں برادران کی روایتی "حکمت عملی" کے تناظر میں یہ سمجھنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے رانا ثنائاللہ کی وساطت سے ملک اسحاق کے انتقام کیلئے بے چین "جہادیوں" کو یہ یقین دہانی کرا دی ہو کہ ملک اسحاق کی ہلاکت میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ فوجی پس منظر رکهنے والے صوبائی وزیر داخلہ نے انہیں بائی پاس کرتے ہوئے اپنی ماتحت اینٹی ٹیرر ازم پولیس کو وقوعہ مظفر گڑھ میں استعمال کیا ..
اور پهر یوں "انتقامی کارروائی" کا رخ انتہائی کامیابی بلکہ عیاری سے صوبائی وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کی جانب موڑ کر انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ..
قارئین گرامی؛ اس سارے معاملے میں ہماری "مادر پدر آزاد عدلیہ" بهی یقینی طور پر برابر کی مجرم یوں ہے کہ اگر وہ ایک سو سے زائد قتل کا بهری عدالت میں اعتراف کرنے والے اور مخالفت گواہوں سمیت ججز اور وکلاء کو دھمکیاں دینے والے ملک اسحاق کو قرار واقعی سزا سنانے کی ہمت دکها دیتی تو نہ مظفر گڑھ کے جعلی پولیس مقابلے کی نوبت آتی، جسے بعد ازاں انتہائی ڈھٹائی سے "نیشنل ایکشن پلان" کی کارروائی ڈیکلئر کر دیا گیا؛ 
اور علی النتیجہ نہ ہی دہشت گردوں کو آج اٹک میں وزیر داخلہ پنجاب کرنل شجاع خانزادہ پر خود کش حملے کی جرات ہوتی ...
سانحہ اٹک نے نام نہاد "ضربِ عضب" اور نام نہاد "نیشنل ایکشن پلان" کی افادیت بلکہ سچ پوچهئے تو ہر دو کی حقیقت پر بهی ایک بار پھر انمٹ سیاہی سے بہت بڑا سوالیہ نشان چسپاں کر دیا ہے ..
وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں کی طرف سے "دہشت گردی کے خاتمے" کے بلند بانگ دعووں کے باوجود دہشت گردوں کے "ضامنین" کی حکومت والے سب سے بڑے صوبے میں امن و امان کی ذمہ دار وزارتِ داخلہ کا عسکری پس منظر کا حامل سربراہ بهی اگر متعلقہ علاقہ کے ڈی ایس پی اور درجن بھر معصوم شہریوں سمیت اتنی آسانی سے دہشت گردوں کا نشانہ بن جاتا ہے تو عسکری اور سول اداروں کی جانب سے گذشتہ دو سال سے جاری "ضربِ عضب" اور "نیشنل ایکشن پلان" کیا "گنڈیریاں بیچنے کا دھندہ" رہا ہے یا پھر امریکہ اور السعودیہ سے "وار آن ٹیررز" کے ڈالرز بٹورنے کا کاروبار ..؟؟؟
شہید کرنل شجاع خانزادہ کی جانب سے سانحہ رحلت سے چند گھنٹے قبل سوشل میڈیا پر اپنے استاد اور وطن عزیز میں دہشت گردی سمیت انتہا پسندی کے سب سے بڑے پروموٹر بلکہ اولین امپورٹر جنرل حمید گل کی "تذویراتی حکمت عملی" کو زبردست خراج عقیدت پیش کرنے کے باوجود خود کرنل صاحب کی اپنے استاد اور ادارے کے "تذویراتی اثاثہ جات" کے ہاتھوں شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر ہی پیپلزپارٹی سمیت دیگر بہت سے مذہبی اور سیاسی مکاتیب فکر کی جانب سے پرجوش بلکہ والہانہ خراجِ تحسین اس حقیقت کا غماز ہے کہ قوم واقعتاً دہشت گردوں کے خلاف یکسو ہو چکی ہے ..
خود ہم نے بهی اچھی طرح واضح ہونے کے باوجود کہ موصوف کا پیشہ ورانہ اور سیاسی ہر تعلق دہشتگردی کے سرپرست ادارے اور پارٹی کے ساتھ رہا اور دہشت گردوں کے خلاف بطور وزیر داخلہ پنجاب، خود آپ کی عملی اور نتیجہ خیز کارروائی بهی ملک اسحاق کی ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہی؛ اس بنیادی وجہ سے کرنل صاحب کو "شہید" لکها ہے کہ انہوں نے اپنی جان اپنے "مہربانوں" کے پالتو درندوں کے ہاتھوں گنوا کر بے نظیر بھٹو شہید، سلمان تاثیر شہید، بشیر احمد بلور شہید اور شہباز بھٹی شہید جیسے جان کی بازی لگانے والوں کی صف میں جگہ پالی ہے ...
مذہبی بدمعاشی کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں جان آفرین کے سپرد کرنے والے تمام شہدائے حق کو سرخ سلام ...
مکمل تحریر >>

عشق کا سرور

کینہ پرور سارے سن لیں
حسدوبغض کے مارے سن لیں
میرے دشمن سارے سن لیں
اور سجن پیارے سن لیں
میں اس منزل کا راہی ہوں
جہاں قدم قدم پر، نگر نگر میں
لہو کے دیُے جلتے ہیں
مرنے کی خاطر جیتے نہیں،
جینے کی خاطر مرتے ہیں۔
میں راہی سنگلاخ چٹانوں کا،
پہاڑوں اور میدانوں کا،
صحراؤں، ریگستانوں کا،
دریاؤں، نخلستانوں کا۔
جسے میرے سنگ سنگ جانا ہے،
جسے میرا ساتھ نبھانا ہے،
یہ سوچ کے آئے، یہ سمجھ کے آئے
یہ سودا عشق کا سودا ہے،
یہ سودا سچا سودا ہے،
اس راہ میں جان کے لالے پڑتے ہیں،
پاؤں میں چھالے پڑتے ہیں 
ہر حاسد فاسد سے الجھنا پڑتا ہے،
منافقت کے ہر روپ سے لڑنا پڑتا ہے۔
یہ بازی عشق کی بازی ہے
"گر بازی عشق کی بازی ہے
جو چاہے لگا دو ڈر کیسا"
یہ بازی جیت گئے تو کیا کہنا
ہاریں بھی تو بازی مات نہیں 
اس ہار میں بھی اک جیت ہے
یہ عشق کی ازلی ریت ہے
مکمل تحریر >>

تلاش کیجئے