دنیا گلوبل ویلیج بنتی جا رہی ہے۔ تمام انسان انٹرنیشنل ہونے جا رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ مسلمان جس برے طریقے سے ملائیت اور آمریت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ہاں اگر قرآن کی سچائی بر حق ہے تو ترقی یافتہ انسان اسے خود ہی لازما" تلاش بھی کر لے گا اور اپنا بھی لے گا۔ کیونکہ گلوبل ویلیج میں تو بالآخر سچائی کا ہی غلبہ ہونا ہے۔ اس وقت تو حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ تمام مسلمان صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں تو قرآن بھی بچ جائے گا اور اسلام بھی تو غلط نہ ہو گا۔ کیونکہ سچائی کو دوسری اقوام سنبھال لیں گی۔ مسلمانوں کو تو فرقہ نوازی سے فرصت نہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے فرقے میں قید ہے اور اپنی اپنی روایات کا پجاری ہے۔ روایات کو آیات پر سوار کر دیا گیا ہے۔ آج کے مسلمانوں کا کوئی بھی فرقہ قرآن پر نہیں اپنی اپنی پسندیدہ روایات پر ہی ایمان رکھتا ہے۔ اگر عربوں نے حدیث سازی کی فیکٹری لگا رکھی ہے تو ایران نے روایات کے طومار باندھے ہوئے ہیں۔ دونوں کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ عقل سے کام لینے والا مومن ہے جبکہ تمام مسلمانوں نے اپنے دماغوں کو تالا لگا کر چابی بحرالکاہل کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دی ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک ساری دنیا ہی کافر ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 23 فیصد ہے اور غیر مسلم آبادی 77 فیصد ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک 77 فیصد تو کافر ہی ہیں اور باقی 23 فیصد ایک دوسرے کے نزدیک کافر ہیں۔