10 اگست، 2015

المیہ قصور اور ہمارا رویہ .!!

یقین جانئے قارئین؛ آرمی پبلک اسکول میں 145 ننھے فرشتوں کے خون سے کهیلی گئی ہولی کے بعد قصور میں 280 معصوم جانوں کے ساتھ بدفعلی جیسے اندوہناک سانحہ نے دنیا جہاں کی سختیاں سزا جان کر جھیلنے کے عادی اس قلم کار کے اعصاب کو بهی بری طرح جهنجوڑ کر توڑ پھوڑ دیا ہے کہ دو روز سے کوشش اور ارادہ کے باوجود اس قیامت خیز المیہ پر قلم اٹھایا نہ جاسکا؛ کہاں سے لاؤں وہ الفاظ جو خود پر بیتی واردات اور احساسات کا حق ادا کر سکیں ... 
یہ کیفیت قارئین گرامی؛ شاید ایک آدھ دن مزید جاری رہتی کہ دفعتاً شرفائے البنجاب کے دو "بهونپووں" کی لن ترانی یکے بعد دیگرے نظر سے گذری، جس نے گویا پہلے سے شکستہ اعصاب کو عذاب مزید سے دوچار کر دیا ...
غور فرمائیے خواتین و حضرات؛ اور داد دیجئے ڈھٹائی اور بے حسی کی بے غیرتی کو چھوتی ہوئی اس انتہا کو کہ جیسے "ہم" نے ملکی عدالتوں اور ریاستی اداروں کو تو پہلے ہی خرید کر رکها ہے، اب "قانون مکافات عمل" بهی گویا ہمارے زیرِ نگیں آگیا ہے...؟؟
"بڑے میاں" کے معتمد خصوصی طلال چودھری کے نزدیک "یہ سانحہ غیر معمولی قطعی طور پر نہیں سمجھا جاتا چاہئے؛ ایسے واقعات عموماً رونما ہوتے ہی رہتے ہیں"...
جبکہ "چھوٹے میاں" کے دست راست رانا ثناء اللہ کے ملتے جلتے خیال کے مطابق "قصور کا واقعہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اسے اسکینڈل بنا دیا جائے"....
پیارے احباب؛ اس "شان بے نیازی" کی وضاحت کیلئے میرے پاس مناسب الفاظ موجود نہیں، آپ نتیجہ خود اخذ کرتے رہئے ....

تلاش کیجئے