17 اگست، 2015

عشق کا سرور

کینہ پرور سارے سن لیں
حسدوبغض کے مارے سن لیں
میرے دشمن سارے سن لیں
اور سجن پیارے سن لیں
میں اس منزل کا راہی ہوں
جہاں قدم قدم پر، نگر نگر میں
لہو کے دیُے جلتے ہیں
مرنے کی خاطر جیتے نہیں،
جینے کی خاطر مرتے ہیں۔
میں راہی سنگلاخ چٹانوں کا،
پہاڑوں اور میدانوں کا،
صحراؤں، ریگستانوں کا،
دریاؤں، نخلستانوں کا۔
جسے میرے سنگ سنگ جانا ہے،
جسے میرا ساتھ نبھانا ہے،
یہ سوچ کے آئے، یہ سمجھ کے آئے
یہ سودا عشق کا سودا ہے،
یہ سودا سچا سودا ہے،
اس راہ میں جان کے لالے پڑتے ہیں،
پاؤں میں چھالے پڑتے ہیں 
ہر حاسد فاسد سے الجھنا پڑتا ہے،
منافقت کے ہر روپ سے لڑنا پڑتا ہے۔
یہ بازی عشق کی بازی ہے
"گر بازی عشق کی بازی ہے
جو چاہے لگا دو ڈر کیسا"
یہ بازی جیت گئے تو کیا کہنا
ہاریں بھی تو بازی مات نہیں 
اس ہار میں بھی اک جیت ہے
یہ عشق کی ازلی ریت ہے

تلاش کیجئے