10 اگست، 2015

آئین کے ساتھ بلاد کار اور طبلہ نوازی.!!

افتخار چوہدری کی مادر پدر آزاد عدلیہ نے آئین کو ایک بار دوبارہ لکھ ڈالا؛ لیکن اس دفعہ اپنی نہیں بلکہ اپنے "آقائے نامدار" ادارے کی ضرورت کے عین مطابق ..
پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو "آئین و پارلیمان کی فتح" کا نام دیتے ہوئے شرم آنی چاہیے، جس میں یہ کہہ کر آئین کا واضح طور پر مذاق اڑایا گیا ہے کہ "پارلیمنٹ کو ہر قسم کی آئینی ترمیم کا حق حاصل ہے، بهلے وہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہی کیوں نہ جارہی ہو"؛ کیونکہ 1973 کے رائج الوقت دستور میں پارلیمان اور عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کو جن بنیادی اصولوں سے چهیڑ چهاڑ کی ممانعت کی گئی ہے، "انسانی حقوق" کی شق ان میں شامل ہے ..
پیپلزپارٹی نے اگر اس خدشے کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام بارے آئینی ترمیم کی مخالفت سے گریز کیا تها کہ اس پر دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد نہ کر دیا جائے تو اب جبکہ اپنے قیام کو کئی ماہ گزر جانے کے بعد بهی یہ فوجی عدالتیں 8000 گرفتار دہشت گردوں میں سے پھانسی کے پہلے سے سزا یافتہ 800 میں سے ان دو درجن کے علاوہ کسی کو بهی لٹکانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں، جو فوجی افسران اور عسکری تنصیبات پر حملوں میں ملوث تهے؛ ایسے میں پیپلز پارٹی کیلئے عدالت کے اس فیصلے پر بغلیں بجانے کی بجائے خاموشی زیادہ بہتر طرزِ عمل سمجھا جاتا ..
پارلیمانی "بزرجمہروں" سمیت اس فیصلے سے "دہشت گردی کے خاتمے" کی اندھی آرزوئیں باندھنے والے میڈیائی افلاطونوں کو بهی عدالت کے ان ریمارکس کی صورت میں آئین کی واضح بے حرمتی پر شرم سے پانی پانی ہو جانا چاہئے کہ "بنیادی انسانی حقوق کی منسوخی سمیت ہر قسم کی آئینی ترمیم پارلیمنٹ کا حق ہے"..
موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم "فل بینچ" کا 11/6 کی اکثریت کے ساتھ منقسم اور جرنیلوں کے اشارہ ابرو پر صادر کیا گیا یہ فیصلہ اس لحاظ سے بهی شرمناک تصور کیا جاتا چاہئے کہ یہی عدلیہ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی اور ترقی بارے زرداری دور کی پارلیمنٹ کو، اس کی منظور کردہ اس آئینی ترمیم میں ترمیم مزید پر مجبور (گویا پارلیمنٹ کے حق کو مسترد) کر چکی ہے، جس میں حتمی فیصلے کا اختیار ججوں کی بجائے پارلیمانی نمائندوں کو دیا گیا تھا ...
اس پس منظر میں پارلیمنٹ کی نام نہاد بالا دستی کے نام پر رچائی گئی اس "نوٹنکی" کا منطقی مفہوم اس کے سوا کیا اخذ کیا جائے کہ
"الباکستان میں عدلیہ پارلیمان سے زیادہ بالادستی کی حامل ہے جبکہ فوج کو اسی عدلیہ پر بھی حتمی بالا دستی حاصل ہے"...
سپریم کورٹ کا کردار اس سارے ڈرامے میں اس وجہ سے بهی "مشکوک" ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ فیصلے سے اختلاف کرنے والے 6 ججز کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر موسٹ جج اور ماہ رواں کی 17 تاریخ کو "چیف جسٹس آف پاکستان" کی نشست سنبهالنے والے جسٹس جواد ایس خواجہ نے 25 صفحات پر مشتمل اپنے "اختلافی نوٹ" میں "بنیادی انسانی حقوق" کا ذکرِ خیر ایک سطر میں بهی کرنا گوارا نہیں کیا، بلکہ اپنے اختلاف رائے کی بنیاد پارلیمان یا عدلیہ کی سُپریمیسی کے سوال پر رکهی ہے ...

تلاش کیجئے