20 اگست، 2015

بیمار قوم کا علاج؛ قانون فطرت کی روشنی میں ..!!

قومیں جب موت و زوال کے چکر میں آجاتی ہیں تو کسی کو نہیں سوجهتا کہ خرابی کہاں پر ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ "اگر اس کائنات فطرت میں ہر جسم کا زوال اس لئے ہے کہ اس جسم کے مختلف حصوں نے اپنا اپنا عمل چھوڑ دیا ہے تو قوم کے جسم کا زوال بھی لازماً اسی وجہ سے ہے"۔
یہاں یہ امر ملحوظ رکھنا ہوگا کہ ایک قوم کس وقت "قوم" کہلانے کی مستحق ہوتی ہے اور کس وقت کثرتِ افراد کے باوجود وہ قوم، قوم نہیں ہوتی۔ گویا محض افراد کی موجودگی قوم ہونے کی دلیل نہیں اور یہی وہ بنیادی بات ہے جس پر ہمارے کسی دانشور نے کبھی بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی؛
لیکن علامہ المشرقیؒ کے نزدیک قوم کا تصور افراد کی اندر عدم مرکزیت اور عدم تنظیم کی حالت میں نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک عدم مرکزیت کا فقدان ہی تمام تر معاشرتی بگاڑ اور سماجی برائیوں کا اصل باعث ہوتا ہے۔ 
جب افراد ایک نظام کی لڑی میں پروئے ہوتے ہیں اور ہربات اجتماعی نقطہء نظر سے سوچتے اورکرتے ہیں، تو ایسے منظم اور ہم آہنگ افراد کی ہیئت اجتماعیہ ہی قوم کہلاتی ہے۔ غیرمنظم اور منتشر افراد کی سوچ اپنی اپنی غرض اور اپنی اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے۔ ایسے افراد کا ہجوم قوم نہیں ہوتا۔ ان کی ذاتی اغراض اور انفرادی سوچ ہی سے نفسا نفسی اور قیامت کا سماں پیدا ہوتا ہے جس میں بیٹے کو باپ اور بھائی کو بھائی کا پاس و لحاظ نہین رہتا۔ خود غرضی اور مفاد پرستی کا یہ ماحول ہی وسیع بگاڑ کا اصل سبب ہوا کرتا ہے۔
اوریہ بات اصولی طورپر درست ہے کہ ایسے خود غرض اور بکھرے ہوئے افراد کی اصلاح کے لئے کسی شرعی یا غیر شرعی قانون کے نفاذ اور کسی انتخابی ہنگامہ آرائی کی نہیں، بلکہ انہیں مناسب خطوط پر منظم کرنے اور تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ ایک قوم بن سکیں اور قومی نقطہء  نظر سے سوچنے کے قابل ہوسکیں۔
علامہ المشرقیؒ نے اس مقصد کے پیش نہاد ابتدائی جماعت بندی کا سلسلہ جاری کیا۔ ایک نظام کی داغ بیل ڈالی اور اسے محلے کی سظح سے لیکر شہری، ضلعی اور ملکی سطح پر وسعت دے دی۔ علامہ محترم نے اس تنظیم و نظام میں شامل ہونے والے افراد کو چندہ لیکر رکنیت دینے کے بجائے انہیں روزمرہ کا کام دیا۔ حرکت کو جاری رکھنے کے لئے ایک محلہ وار سطح پر پروگرام دیا؛ ظاہر ہے کہ جو فرد ایک آواز اور ایک حکم پر کچھ نہ کچھ حرکت شروع کردے وہ کچھ عرصہ بعد اس جماعت کا ہی ہوکر رہ جاتا ہے؛ افراد کے اندر یہ خوبی پیدا کرنا ہی بنیادی کام ہے، جو نصیحت، وعظ اور تلقین یا کسی اور طرح سے پیدا نہیں ہوسکتی۔ 
اسلئے اصلاح احوال کے مروجہ گول مول اور بے نتیجہ طریقوں کو عرصہ دراز تک دیکھنے کے بعد یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ قوم اور قومی یکجہتی اتحاد و عمل کے بغیر ناممکن ہے اور اتحاد و عمل ایک تنظیم کی وساطت سے ہی بنائے جاسکتے ہیں۔ جب جا کر کسی بہتر نتیجے کی توقع ہوسکتی ہے۔
آپ حضرات یقیناً اتفاق کریں گے کہ پورا عالمِ اسلام اور پاکستان میں ایک بڑی خرابی اجتماعیت اور نظم و ضبط کا فقدان ہے۔ جس قوم کے افراد میں اجتماعیت اور نظم و ضبط نہیں، وہ سرے سے قوم ہی نہیں۔ وہ محض بے ہنگم افراد کی بھیڑ ہوتی ہے جس کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ عدم رابطہ کی وجہ سے اعتماد باہمی کی فضا پیدا نہیں ہوتی۔ 
نظم و ضبط اور اجتماعیت تربیت اوراطاعت سے پیدا ہوتے ہیں؛ جس طرح ملٹری اکیڈیمی میں لباس درست طور پر پہننے، تسمے ٹھیک طرح کسنے، آستینیں ٹھیک طور پر چڑھانے، ٹوپی ٹھیک طور پہننے اور قدم ایک ساتھ اٹھانے سے اطاعت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور جس طرح اسلام نے بھی ایک ہی طرح ہاتھ منہ دھونے، ایک ہی طرح صف بندی کرنے، ایک ہی وقت پر ایک امام کے پیچھے ایک ہی حرکت کرنے سے افراد متعلقہ میں اطاعت اور نظم ضبط پیدا کرکے حیران کُن نتائج پیدا کردئیے تھے۔ 
اس تخیل کے تحت المشرقیؒ نے بھی ایک مخصوص لائحہء عمل رائج کرکے ملت کے ایک عنصر کے اندر اجتماعیت اور نظم ضبط اور اطاعت کا قابلِ تعریف اخلاق پیدا کردیا تھا۔
لیکن تربیت اور اخلاق ناول نویسی، ڈرامے بازی اور قانون سازی سے ممکن نہیں؛ تفسیریں، تقریریں اور شعروں سے بالکل ممکن نہیں اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ المشرقیؒ نے صرف چند سال میں قوم کے اندر نظم و ضبط اور اجتماعیت کا جو نمونہ اور اطاعت کا بلند ترین اخلاق پیدا کردیاتھا؛ اس کا پچاسواں حصہ بھی کوئی بڑی سے بڑی پرہیز گار اور سیاست باز پارٹی گذشتہ 68 سالوں میں بھی پیدا نہ کرسکی۔
آج ملک اور قوم کی اصلاح و تعمیر کے لئے اس کیریکٹر کا تصور پایا جاتا ہے کہ سچ بولا جائے، ملاوٹ نہ کی جائے، جھوٹی شہادت نہ دی جائے، چوری چکاری اور غنڈہ گردی سے اجتناب کیا جائے؛ لیکن ایسا کریکٹر نظم و ضبط اور حرکت کے کس فارمولے پر عمل اورمناسب تربیت کے بدوں پیدا نہیں ہوسکتا۔
اس زمین کے اور کسی قوم کے بگڑے ہوئے معاشرے کے سدھار کے متعلق جس بھی مصلح نے سوچا؛ اس نے سب سے پہلے انسانوں کی درستگی پر توجہ دی۔ انسانوں کے اجتماعی کریکٹر کی تشکیل پر کام کیا۔ انسانوں کی خود سری اور خود رائی کو ختم کر کے انہیں اطاعت سکھائی. جس لیڈر نے زمین کے کسی خطے پر قیام حکومت کا منصوبہ بنایا، اُس نے سب سے پہلے عوام میں اپنے ڈھب کو بنایا، اپنی بات سننے اور ماننے کے لئے تیار کیا۔ ان کی سوچ کا رُخ انفرادیت سے ہٹا کر اجتماعیت کی طرف موڑ دیا۔ عوام کو ان کے حقوق وفرائض سے آگاہ کیا۔ انہیں معاشرتی آداب سکھائے اور پھر جب ان تربیت یافتہ عوام کی حکومت قائم ہوئی تو انسانی معاشرہ عدل و انصاف کی خوش گواریوں سے چھلک اٹھا۔ اِن میں قاضی چنے گئے تو انہوں نے انصاف کو مقدم رکھا، وکیل بنائے گئے تو قانون کا بول بالا ہوا، پولیس والے بنائے گئے تو عوام کی جان و مال کے محافظ بنے۔ ڈاکٹر بنے تو دُکھی انسانیت کا سہارا بنے، کاروباری بنے تو دیانت دار، ملازم بنے تو وفادار، مزدور بنے تو ایمان دار۔
ملک پاکستان کے اندر وہ تمام برائیاں جو آج پورے عروج پر ہیں، یہ بغیر کسی وجہ جواز کے نہیں؛ اب ہمارے معاشرے میں عزت کا معیار کسی عملی صلاحیت پرنہیں بلکہ دولت اور اس کی فراوانی پر ہے.. ظاہر ہے کہ اس معیار کو قائم رکھنے کے لئے جائز اور ناجائز میں امتیاز کی ضرورت نہیں، روپے کی ضرورت ہے؛ یہی رجحان تمام بیماریوں کی بنیادی جڑ ہے.. اس نے ہی معاشرے میں طبقاتی ناہمواری اور لاقانونیت کا جنم دیا ہے۔
علامہ المشرقیؒ نے اس بیماری کو شروع سے ہی بھانپ لیا تھا؛ انہوں نے اس کے سدباب کے لئے اوپر سے نیچے تک خاکی لباس پہننے کی شرط عائد کردی، ہر چھوٹے بڑے ہر ادنی ٰ و اعلیٰ کے کندھے پربیلچے کا شرمندہ کن اوزار رکھ کر سب کے عمل کا ایک معیار مقرر کردیا۔ اس طرح معاشی تفاخر اور سٹیٹس کی تمام بک بک سرے سے ہی ختم کر دی۔ 
یہی حکمت عملی ماؤے تنگ نے بھی اختیار کی اور ساٹھ کروڑ چینوں کو یکساں لباس پہنوا کر عام مساوات کا ماحول پیدا کردیاتھا۔ لہٰذا آج بھی ہمیں عدم مساوات کے بھڑکتے ہوئے جہنم کو ٹھنڈا کرنے کے لئے المشرقیؒ کی تجویز و تدبیر سے استفادہ کرنا ہوگا۔
بشکریہ: رشید ملک ایڈووکیٹ مرحوم (ادارہ معارفِ افکار المشرقیؒ گجرات)

تلاش کیجئے