ایک مختصر جائزہ:
تاریخ عالم گواہ ہے کہ علم نے ہزاروں معرکے سر کئے ہیں۔ جہالت کو ہر میدان میں شکست فاش سے دو چار کیا ہے۔ علم وسائل کی کمی بیشی کی پرواہ نہیں کرتا۔ علم جب عمل کی راہ پر چل پڑتا ہے تو اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ پاش پاش ہو جاتی ہے۔ علم مالی کمزوریوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ علم نے بڑے بڑے وسائل کے مالک شہنشاہوں کو شکست دی ہے۔ علم ہر زمانے میں سر بلند رہا ہے۔ یہ علم ہی ہے کہ جس نے انسانی قافلے کو اعلی سے اعلی تر منازل کی جانب رواں دواں رکھا ہے۔ آئیے بڑی بڑی مثالوں میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں:
۱- سلطنت فارس کا قیام:
اس عظیم سلطنت کے قیام سے پہلے متعدد اہم تہذیبیں ترقی کے لحاظ سے قابل ذکر تھیں۔ ان میں مصر یعنی وادئ نیل کی تہذیب، عراق یعنی دجلہ و فرات کی تہذیب اور عظیم وادئ سندھ کی تہذیب شامل ہیں۔ یہ تہذیبیں زرخیز زرعی زمینوں، دریاؤں اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال تھیں۔ ان کے بیچ میں فارس کا علاقہ تھا جہاں کوئی قابل ذکر دریا نہ تھا، وسائل کی شدید کمی تھی۔ اس طرح نا قابل ذکر لوگوں کی سرزمین سمجھی جاتی تھی۔ لوگ خانہ بدوش تھے۔ خشک سالی کے موسم میں اپنے گھوڑوں، گدھوں پر سامان لادے جگہ جگہ گھومنے پر مجبور تھے۔ یہ خانہ بدوش مغرب میں مصر تک اور مشرق میں وادئ سندھ کے وسیع و عریض میدانوں تک گھومتے رہتے تھے۔ یوں یہ خانہ بدوش سفر وسیلہ ظفر کے مصداق علم کی دولت سے مالا مال ہو گئے۔ یہ کروش کبیر (سائرس اعظم) یعنی ذوالقرنین کی قیادت میں منظم ہو گئے۔ انہوں نے سب سے پہلے فارس اور میڈیا کی ریاستوں کو اکٹھا کر کے سلطنت فارس کی بنیاد رکھ دی۔ اس کے بعد فتوحات کا سلسلہ چل پڑا۔ نہ بے سروسامانی آڑے آئی، نہ وسائل کی کمی۔ انہوں نے علم کی قوت سے عظیم وسائل رکھنے والے حکمرانوں کو شکست پہ شکست دی۔ ایک وسیع علاقے پر پہلی سب سے بڑی سلطنت قائم کردی۔ اس میں مصر، شام، لیوانت، عراق، ایران اور وادئ سندھ کے علاقے شامل تھے۔ یوں محض علم کی قوت کے ساتھ خانہ بدوشوں نے عظیم سلطنت فارس قائم کر دی۔ اس کا دارالخلافہ موجودہ تہران کے جنوب میں پاسر گدائی کے مقام پر تھا۔
۲- سکندر یونانی کی فتوحات:
یونان بحرۂ روم کیشمال میں ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ متعدد جزیروں اور جزیرہ نماؤں پر مشتمل، محدود وسائل، گونا گوں مشکلات کا شکار، ناکافی زرعی زمین، چھوٹی بڑی پہاڑیوں کی ناہمواری اور وسیع و عریض سمندر کے بیچ میں واقع ملک جسے یونان کہا جاتا ہے۔ یونان کی صورت میں متحد ہونے سے پیشتر متعدد ریاستوں پر مشتمل علاقہ تھا۔ ان ریاستوں میں قابل ذکر، کورنتھ، تھیسلے، مقدونیہ اور تھریس تھیں۔ یونان میں وسائل کی شدید کمی کی وجہ سے زندگی مشکلات کا شکار تھی۔ دوسری طرف بحرۂ روم کے مشرق اور جنوب میں تین بر اعظموں پر پھیلی ہوئی ہر قسم کے وسائل سے مالا مال سلطنت فارس تھی۔ یونانیوں نے علم و تحقیق پر تمام تر توجہ مرکوز کر دی، اس طرح جدید علوم کے ہر شعبے کی بنیاد رکھ دی۔ ان علوم میں ریاضی، فلسفہ، سائنس، معاشی و معاشرتی علوم شامل ہیں۔ انہوں نے قدرت کے پوشیدہ قانون دریافت کئے اور جہازرانی کو فروغ دیا۔ جدید علوم کی مدد سے بڑے بڑے بحری جہاز بنائے، جدید اسلحہ تیار کیا اور سلطنت فارس پر حملوں کی تیاری کر لی۔ دوسری طرف ذوالقرنین کے جانشین عیاشیوں میں پڑ گئے، علم و تحقیق پر توجہ نہ دی۔ یوں یونانیوں نے نوجوان سکندر اعظم کی قیادت میں تمام تر بے سروسامانیوں اور محدود وسائل کے باوجود، محض اعلی علم کی قوت سے، ہر قسم کے وسائل سے مالا مال سلطنت فارس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، قصر دارا تباہ کر دیا اور پوری کی پوری سلطنت فارس فتح کر لی۔ بد قسمتی سے نوجوان سکندر فتوحات کے بیچ میں فوت ہو گیا اور کسی جانشین کا بندوبست نہ کر سکا۔ ملٹری جرنیلوں نے جگہ جگہ اپنی اپنی یونانی ریاستیں اور کالونیاں قائم کر لیں۔ مفتوحہ علاقوں پر متحدہ یونانی سلطنت قائم نہ ہو سکی۔
۳- سلطنت روم کا قیام:
یونان کے مغرب میں بحرۂ روم کے شمال میں ایک جزیرہ نما خطہ ہے جسے اٹلی کہتے ہیں۔ اٹلی کے تین اطراف میں بحرۂ روم ہے اور شمال سے یہ یورپ کے دیگر ممالک سے جڑا ہوا ہے۔ اٹلی کے شمال مغرب میں شہر روم اور اس کے گردونواح کے علاقے میں رومن قبیلہ آباد تھا۔ یہ بہت جنگجو قبیلہ تھا۔ یونان علم و تحقیق کا مرکز تھا۔ سکندر کی اچانک وفات کے بعد مفتوحہ علاقے یونانی جرنیلوں نے تقسیم کر لئے۔ اب یونانیوں کی پہلے والی قوت قائم نہ رہ سکی۔ اس طرح دو طاقتوں نے یونانیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا شروع کیا۔ مغرب سے رومی اٹھ کھڑے ہوئے اور مشرق سے ایرانی اپنی عظمت رفتہ کے حصول کے لئے میدان میں آگئے۔ رومیوں نے یونانیوں کے دریافت کردہ جدید علوم سے بھر پور فائد اٹھایا۔ رومی فتوحات کے راستے میں چھوٹی یونانی ریاستیں زیادہ مزاحمت نہ کر سکیں۔ رومی سلطنت قائم ہونے لگی۔ رومیوں نے بحرۂ روم کے تمام ممالک فتح کر لئے۔ اپنی علمی برتری کی وجہ سے یورپ اور برطانیہ کو سلطنت روم میں شامل کر لیا۔ جنوب میں افریقی سلطنت کارتھیج بھی فتح کر لی۔ کارتھیج کو آجکل تنزانیہ کہا جاتا ہے۔ رومیوں نے مصر اور بحرۂ روم کے مشرقی علاقوں کو بھی سلطنت روم کا حصہ بنا دیا۔ ان علاقوں میں شام قابل زکر ہے۔ دوسری طرف ایرانی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ انہوں نے دوبارہ سے سلطنت فارس قائم کردی۔ دریائے فرات کے مشرقی کناروں سے مشرق کے تمام اہم علاقے نئی سلطنت فارس کا حصہ بن گئے۔ اس طرح اب دو عظیم سلطنتیں قائم ہو گئیں۔ دونوں کے بیچ میں دریائے فرات نئی سرحد قرار پائی۔
رومیوں نے یونانی علوم کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سائنس اور انجنئرنگ میں کمالات دکھائے۔ آج بھی اٹلی اور روم میں آرکیٹیکچر اور انجنئرنگ کے متعدد عجائبات رومیوں کی علمی مہارت کی داد دے رہے ہیں۔ یوں علم کی قوت کے ساتھ ایک چھوٹے سے رومی قبیلہ نے وسیع و عریض علاقے پر سلطنت روم قائم کر دی۔
۴- صحرا نوردوں کے علمی کمالات:
بے سروسامانی کے باوجود علمی فتوحات کا عظیم الشان کارنامہ صحرا نوردوں نے انجام دے کر ایک نئی مثال قائم کر دی۔ دنیا میں دو بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہو گئیں، سلطنت فارس اور سلطنت روم۔ گویا دنیا مشرق و مغرب میں تقسیم ہو گئی۔ دونوں سلطنتوں کے بیچ میں ایک وسیع و عریض صحرا تھا یعنی جزیرہ نما عرب۔ اس صحرا میں چھوٹی چھوٹی صحرائی بستیاں تھیں، جہاں مختلف قبائل آباد تھے۔ یہاں کوئی بڑی معاشی کشش نہ تھی۔ لہاذہ اس ریگستان اور بے آب و گیاہ میدان میں کسی کو گھوڑے دوڑانے میں دلچسپی نہ تھی۔ اس طرح سلطنت فارس اور سلطنت روم کے درمیان میں یہ ایک آزاد قبائلی خطہ تھا۔ یہاں سید المرسلین محمدﷺ کی قیادت میں ایک نئی علمی تحریک کا آغاز ہوا۔ ایک نیا اور اعلی علمی نسخہ پیش کیا گیا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے قبائل کو شیر و شکر کر دیا، انہیں ایک قوم بنا دیا۔ ان صحرا نوردوں کے پاس گھوڑے اور تلوار کے سوا کوئی سازوسامان نہ تھا۔ اگر کچھ تھا تو علم و شجاعت کی بے مثال قوت۔ دوسری طرف سلطنت فارس اور سلطنت روم ہر قسم کے وسائل سے مالا مال۔ محمدﷺ نے اسے قوم بنا دیا اور عظیم الشان علم و فلسفہ کی قوت عطا کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھے ہی ان صحرا نوردوں نے پوری کی پوری سلطنت فارس فتح کر ڈالی اور سلطنت روم کے بہت سے ایشیائی اور افریقی علاقے صحرا نوردوں کے قدم چومنے لگے اور یورپ کے رومی علاقوں پر دستک دینے لگے۔ یہ سب علم و شجاعت کی بدولت ہوا، اعلی قیادت کی بدولت ہوا۔ ایک دفعہ پھر ثابت ہو گیا کہ بے سروسامانی کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔
۵- یورپ کا صنعتی انقلاب:
اسلام سے پہلے یورپ چرچ اور بادشاہت کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا، جسے آج کل یورپ کا تاریک دور کہا جاتا ہے۔ اسلام نے دنیا کو نئے زریں اصول دئے۔ یورپ نے یہ اصول اپنا لئے، نئی نئی ایجادات کیں، نئے نئے اعلی علوم دریافت کئے، صنعتی انقلاب برپا کر دیا۔ جس سے پوری دنیا مستفید ہو رہی ہے۔ بد قسمتی سے اہل اسلام رسومات و روایات میں کھو گئے۔ ملائیت اور آمریت کے شکنجے میں جکڑے جا چکے ہیں۔ اسلام کے زریں اصول بھول چکے ہیں۔ دوسری طرف یورپی اقوام علم کی قوت کے ساتھ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ امریکہ اور آسٹریلیا تک پھیل چکی ہیں۔
علم و شجاعت بہت بڑی طاقت ہے۔ ملائیت اور آمریت کے تاریک دور سے باہر نکلیں۔ نئے علوم دریافت کریں۔ یہ میدان سب انسانوں کے لئے کھلا ہے۔
کتابیں اپنے آبا کی، وہ علم کے موتی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سیپارہ
اقبالؒ