قیام پاکستان کی 68 ویں سالگرہ کا جشن مناتے ہوئے ہمیں لمحہ بھر رْک کر سوچنا ضرور چاہئے کہ ایک ایسی کیفیت میں جب ہم پر مْسلط کی جانے والی حکومتوں سمیت ہماری قسمت کے تمام فیصلے اب تک واشنگٹن اور لندن یا پھر ہمارے سابق آقا برطانیہ عظمیٰ اور موجودہ آقا امریکہ بہادر کے علاقائی اڈوں ریاض اور دوبئی میں طے کئے جاتے ہیں، جن کیلئے ہمارے باجگذار بادشاہوں سمیت بہادر سپہ سالاروں تک سب کو ان مقامات پر بْلا کر ایجنڈہ تھما دیا جاتا ہے، جسے بلا چوں و چرا مان لینے کے سوا ہمارے پاس آپشن ہی کوئی نہیں چھوڑی جاتی؛
نیز یہ کہ جب "مْملکت خْداداد" کا "عالمی کردار" صرف اور صرف عالمی سامراج کی ضروریات کے عین مطابق، صرف چند ملین ڈالرز کے عوض کبھی دہشت گردوں کی کھیپ تیار کرنا تو کبھی ڈالرز کی نئی قسط کے بدلے اپنے تیار کردہ دہشت گردوں کی بیخ کنی کے سوا رہ ہی کچھ نہیں جاتا؛ …………
تو کیا "آزادی کے اس وکھرے ایڈیشن" کو مکمل آزادی کا نام دیا بھی جاسکتا ہے یا نہیں۔۔؟؟
مجھے یقین یہی ہے خواتین و حضرات کہ جواب آپ سب کا بھی میری طرح "مکمل نفی" میں ہی ہوگا۔۔۔
وجہ اس ”ادھوری آزادی“ کی قارئین؛ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ انگریز بہادر کی طرف سے سکھائی گئی ”سیاست“ نے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا رکھا کہ بھلے دنیا بھر کی قومیں سامراج کی غلامی سے چھٹکارہ پانے کیلئے متحد اورمنظم اجتماعی طاقت کو واحد وسیلہ جان کر کسی ایسی تنطیم سازی کا راستہ اختیار کرنے کی عادی رہی ہوں جو ڈسپلن پیدا کرنے والے کسی تربیتی نظام پر ”باقاعدہ عمل“سے گذرتا ہو، لیکن ہمارا گوری چمڑی والا ”مہذب“ آقا جب صرف قراردادوں اور ووٹوں کے مظاہرے پر ہی ”آزادی“ کی نعمت ہماری جھولی میں ڈال کر ’ازخود‘ ہماری جان چھوڑ رہا ہے تو ہمیں مصیبت مول لینے کی کیا ضرورت ہے،چلو آؤ”کھوٹے سکوں“ سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔۔ اسی لئے تو ہم نے اقوام کے عروج و زوال کے فطری قوانین کے منفرد شارح علامہ عنات اللہ المشرقیؒ کے اس بروقت انتباہ پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ ”برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ غاصب انگریز سے کروانا نئے تنازعات کو دعوت دینے کے مترادف ہے، اسلئے ضروری ہے کہ ہندو اور مسلما ن دونوں متحد ہو کر پہلے سونے کی چڑیا کے پر نوچنے والے سامراج کو نکال باہر کریں اور آپس کے اختلافات بعدازاں باہم بیٹھ کر طے کرتے رہیں“۔
قارئین کرام؛ اس "ادھوری آزادی" اور "دہشت گردی کی جنت" کے عالمی اعزاز سمیت ہمارے تمام مسائل کی واحد وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم ایک "قوم" نہیں بلکہ افراد کا ایک غیر منظم وجود ہیں، لہٰذا واحد اور نتیجہ خیز "حل" بھی یہی ٹھہرا کہ "پاکستانی" نامی بھیڑ بکریوں کو پہلے ایک "قوم" کی صورت منظم کیا جائے، جس کے بعد یہ "قوم" دہشت گردی کے علاوہ اخلاقی، اقتصادی اور معاشرتی بْحران سمیت تمام مسائل کا توڑ خود دریافت کر لے گی۔۔ قوم سازی اور اقوام عالم کے عرج و زوال جیسے علوم پر میرے ناچیز مطالعہ کی رْو سے اس "منظم" وجود کی تشکیل کا تیز تر اور تیر بہدف نْسخہ علامہ المشرقیؒ کی خاکسار تحریک جیسے عملی تربیت کے کسی پروگرام پر باقاعدہ عمل کی روایت ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔ ……. وما الینا علی البلاغ