جی ہاں؛ ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے دوران امریکہ اور روس کی قیادت میں قائم بڑی طاقتوں پر مشتمل "اتحادی افواج" کو ہٹلر کے جرمنی، جنرل ٹوٹو کے جاپان اور مسولینی کے اٹلی جیسے نسبتاً کمزور ممالک کے اتحاد کے ہاتھوں مختلف محاذوں پر خاصی عبرتناک خفت اٹھانے کے باوجود ایٹمی بمباری کا خیال نہ آیا، ایٹم بم گرانے کی ضرورت اگر آن پڑی تو اس وقت جب ہندوستان کی وہ "کالونی" ہاتھ سے نکلتی دکهائی دی، جس کے سودے بازی کی وجہ سے اسلحہ کی پیداوار اور تجارت کے ذریعے عالمی سامراج جیسی طاقت پکڑنے والا امریکہ بہادر اس عالمی جنگ کے دوران ہندوستان پر قابض برطانیہ کو اسلحہ اور نقدی کی شکل میں چودہ ملین پونڈز قرضہ روزانہ کے حساب سے دے رہا تها، اچھی طرح یہ جان لینے کے باوجود کہ اس کا برطانوی حلیف جنگ کی تباہ کاریوں سے بچ بهی نکلا تو کم از کم یہ بهاری قرض لوٹانے کی پوزیشن میں بہرحال نہ رہے گا، سوائے اس کے کہ ہندوستان جیسی سٹریٹجک اہمیت کی حامل اپنی کالونی کا قبضہ بدلے میں اپنے قرض خواہ کے حوالے کر جائے ..
اور قارئین گرامی؛ جنگ عظیم دوم کے بعد اب تک 70 سال کی تاریخ گواہ ہے کہ عملاً ہوا بهی ایسا ہی ہے ...
خواتین و حضرات؛ ہم بتا رہے تھے کہ امریکہ کو جنگ عظیم کی بڑی بڑی تباہ کاریوں کے باوجود ایٹمی ہتھیار استعمال میں لانے کی ضرورت اس وقت پیش آئی، جب جاپانی افواج رنگون (برما) پر قبضہ مکمل کرنے کے بعد سمندری راستے سے ہندوستان کی جانب پیش قدمی شروع کر چکی تهیں، جہاں نیتا جی سبهاش چندر بهوس کی "انڈین نیشنل آرمی" کے دستے ان کی رہنمائی کی خاطر سمندر میں لنگر انداز، جاپانی افواج کے بے چینی سے منتظر تهے ...
اور اس طرح جاپان کے دو اہم ترین شہروں کو ایٹمی تباہ کاری کا شکار کرنے کے بعد امریکہ نے جاپانی دستوں کے ہندوستان کی جانب بڑهتے قدم روک کر اپنے اس "تذویراتی اثاثہ" کو محفوظ کر لیا؛ جسے بعد ازاں تقسیم کے ایک سوچے سمجهے منصوبے کی مدد سے ایسا مسلسل میدان جنگ بنا دیا گیا، جو گذشتہ 7 دہائیوں سے امریکی اسلحے کی منافع بخش مارکیٹ بنے رہنے کے ساتھ ساتھ اہم ترین جغرافیائی اہمیت کے حامل اس خطے میں امریکہ کے سیاسی مفادات کے مورچے کا فریضہ بهی بطریق احسن انجام دئے جا رہا ہے ...
قارئین؛ تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ فیصلہ اب خود کرلیجئے کہ 2 ایٹم بموں کے بدلے میں "الباکستان" جیسی 53 ویں اسٹیٹ؛ سودا مہنگا ثابت تو بہرحال نہیں ہوا نا ...؟؟؟