وزیر داخلہ پنجاب کے خون ناحق کی ذمہ داری مادر پدر آزاد عدلیہ، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور صوبائی وزیر قانون کے سوا کس پر عائد ہوتی ہے ...؟؟
چھوٹے میاں کی جانب سے چند سال پہلے اپنے پروردہ طالبان کو "ہمارا تمہارا ایجنڈہ ایک" کی یقین دہانی کے ساتھ "ہمارے صوبے کو معاف رکهئے" کی اپیل کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کارروائیوں سے اب تک عملاً محفوظ چلے آ رہے صوبہ پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی، اٹک میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں شہادت کی خبر نے ہمیں شریف برادران، مادر پدر آزاد عدلیہ اور رانا ثنائاللہ کے مربی ملک اسحاق کی چند روز قبل مظفر گڑھ میں پولیس مقابلے میں ہلاکت کی کہانی کے علاوہ اس وقوعہ کے ایک آدھ دن بعد لاہور کی ایک نیم پوش آبادی میں واقع ایک دیوبندی مدرسہ کے نائب مہتمم کے یہ الفاظ بھی یاد کرا دیئے کہ "میاں برادران نے مولانا ملک اسحاق کو پولیس مقابلے میں مروا کر ہمارے ساتھ بہت بڑا دهوکہ کیا ہے"..
قارئین کرام؛ ملک اسحاق وقوعہ کے بعد میں نے میاں برادران کو ٹی وی چینلز پر جب بھی دیکھا، ہر دو کا چہرہ موت کے خوف سے زرد ہی پایا، جسے یار لوگ خاکیوں کے ساتھ جاری ان کی چپقلش کا شاخسانہ قرار دیتے رہے؛ جبکہ میرے نزدیک اپنے پالتو دہشت گردوں کی طرف سے ملک اسحاق کے قتل پر متوقع انتقامی کارروائی کا خوف اس پژمردگی کی اصل وجہ رہا ..
اس پس منظر میں خواتین و حضرات؛ چند روز قبل پنجاب کابینہ کے اجلاس کی کارروائی بارے اس رپورٹ پر غور کرنا ضروری بن جاتا ہے، جس کے مطابق کرنل شجاع، رانا ثنائاللہ پر وزارت داخلہ کے امور میں مداخلت کے الزام لگاتے رہے جبکہ رانا ثناء کرنل پر نااہلی کے جوابی الزامات؛ اور بالآخر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو صوبہ کے داخلی امور آئندہ براہ راست اپنی نگرانی میں لینے کا اعلان کرنا پڑا؛
جی ہاں؛ دونوں صوبائی وزراء کے مابین تنازعہ کی بنیاد "ملک اسحاق ایپی سوڈ" کے علاوہ کوئی اور کم از کم میری سمجھ میں تو نہیں آرہی ..
اندریں حالات؛ میاں برادران کی روایتی "حکمت عملی" کے تناظر میں یہ سمجھنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے رانا ثنائاللہ کی وساطت سے ملک اسحاق کے انتقام کیلئے بے چین "جہادیوں" کو یہ یقین دہانی کرا دی ہو کہ ملک اسحاق کی ہلاکت میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ فوجی پس منظر رکهنے والے صوبائی وزیر داخلہ نے انہیں بائی پاس کرتے ہوئے اپنی ماتحت اینٹی ٹیرر ازم پولیس کو وقوعہ مظفر گڑھ میں استعمال کیا ..
اور پهر یوں "انتقامی کارروائی" کا رخ انتہائی کامیابی بلکہ عیاری سے صوبائی وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کی جانب موڑ کر انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ..
قارئین گرامی؛ اس سارے معاملے میں ہماری "مادر پدر آزاد عدلیہ" بهی یقینی طور پر برابر کی مجرم یوں ہے کہ اگر وہ ایک سو سے زائد قتل کا بهری عدالت میں اعتراف کرنے والے اور مخالفت گواہوں سمیت ججز اور وکلاء کو دھمکیاں دینے والے ملک اسحاق کو قرار واقعی سزا سنانے کی ہمت دکها دیتی تو نہ مظفر گڑھ کے جعلی پولیس مقابلے کی نوبت آتی، جسے بعد ازاں انتہائی ڈھٹائی سے "نیشنل ایکشن پلان" کی کارروائی ڈیکلئر کر دیا گیا؛
اور علی النتیجہ نہ ہی دہشت گردوں کو آج اٹک میں وزیر داخلہ پنجاب کرنل شجاع خانزادہ پر خود کش حملے کی جرات ہوتی ...
سانحہ اٹک نے نام نہاد "ضربِ عضب" اور نام نہاد "نیشنل ایکشن پلان" کی افادیت بلکہ سچ پوچهئے تو ہر دو کی حقیقت پر بهی ایک بار پھر انمٹ سیاہی سے بہت بڑا سوالیہ نشان چسپاں کر دیا ہے ..
وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں کی طرف سے "دہشت گردی کے خاتمے" کے بلند بانگ دعووں کے باوجود دہشت گردوں کے "ضامنین" کی حکومت والے سب سے بڑے صوبے میں امن و امان کی ذمہ دار وزارتِ داخلہ کا عسکری پس منظر کا حامل سربراہ بهی اگر متعلقہ علاقہ کے ڈی ایس پی اور درجن بھر معصوم شہریوں سمیت اتنی آسانی سے دہشت گردوں کا نشانہ بن جاتا ہے تو عسکری اور سول اداروں کی جانب سے گذشتہ دو سال سے جاری "ضربِ عضب" اور "نیشنل ایکشن پلان" کیا "گنڈیریاں بیچنے کا دھندہ" رہا ہے یا پھر امریکہ اور السعودیہ سے "وار آن ٹیررز" کے ڈالرز بٹورنے کا کاروبار ..؟؟؟
شہید کرنل شجاع خانزادہ کی جانب سے سانحہ رحلت سے چند گھنٹے قبل سوشل میڈیا پر اپنے استاد اور وطن عزیز میں دہشت گردی سمیت انتہا پسندی کے سب سے بڑے پروموٹر بلکہ اولین امپورٹر جنرل حمید گل کی "تذویراتی حکمت عملی" کو زبردست خراج عقیدت پیش کرنے کے باوجود خود کرنل صاحب کی اپنے استاد اور ادارے کے "تذویراتی اثاثہ جات" کے ہاتھوں شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر ہی پیپلزپارٹی سمیت دیگر بہت سے مذہبی اور سیاسی مکاتیب فکر کی جانب سے پرجوش بلکہ والہانہ خراجِ تحسین اس حقیقت کا غماز ہے کہ قوم واقعتاً دہشت گردوں کے خلاف یکسو ہو چکی ہے ..
خود ہم نے بهی اچھی طرح واضح ہونے کے باوجود کہ موصوف کا پیشہ ورانہ اور سیاسی ہر تعلق دہشتگردی کے سرپرست ادارے اور پارٹی کے ساتھ رہا اور دہشت گردوں کے خلاف بطور وزیر داخلہ پنجاب، خود آپ کی عملی اور نتیجہ خیز کارروائی بهی ملک اسحاق کی ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہی؛ اس بنیادی وجہ سے کرنل صاحب کو "شہید" لکها ہے کہ انہوں نے اپنی جان اپنے "مہربانوں" کے پالتو درندوں کے ہاتھوں گنوا کر بے نظیر بھٹو شہید، سلمان تاثیر شہید، بشیر احمد بلور شہید اور شہباز بھٹی شہید جیسے جان کی بازی لگانے والوں کی صف میں جگہ پالی ہے ...
مذہبی بدمعاشی کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں جان آفرین کے سپرد کرنے والے تمام شہدائے حق کو سرخ سلام ...
چھوٹے میاں کی جانب سے چند سال پہلے اپنے پروردہ طالبان کو "ہمارا تمہارا ایجنڈہ ایک" کی یقین دہانی کے ساتھ "ہمارے صوبے کو معاف رکهئے" کی اپیل کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کارروائیوں سے اب تک عملاً محفوظ چلے آ رہے صوبہ پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی، اٹک میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں شہادت کی خبر نے ہمیں شریف برادران، مادر پدر آزاد عدلیہ اور رانا ثنائاللہ کے مربی ملک اسحاق کی چند روز قبل مظفر گڑھ میں پولیس مقابلے میں ہلاکت کی کہانی کے علاوہ اس وقوعہ کے ایک آدھ دن بعد لاہور کی ایک نیم پوش آبادی میں واقع ایک دیوبندی مدرسہ کے نائب مہتمم کے یہ الفاظ بھی یاد کرا دیئے کہ "میاں برادران نے مولانا ملک اسحاق کو پولیس مقابلے میں مروا کر ہمارے ساتھ بہت بڑا دهوکہ کیا ہے"..
قارئین کرام؛ ملک اسحاق وقوعہ کے بعد میں نے میاں برادران کو ٹی وی چینلز پر جب بھی دیکھا، ہر دو کا چہرہ موت کے خوف سے زرد ہی پایا، جسے یار لوگ خاکیوں کے ساتھ جاری ان کی چپقلش کا شاخسانہ قرار دیتے رہے؛ جبکہ میرے نزدیک اپنے پالتو دہشت گردوں کی طرف سے ملک اسحاق کے قتل پر متوقع انتقامی کارروائی کا خوف اس پژمردگی کی اصل وجہ رہا ..
اس پس منظر میں خواتین و حضرات؛ چند روز قبل پنجاب کابینہ کے اجلاس کی کارروائی بارے اس رپورٹ پر غور کرنا ضروری بن جاتا ہے، جس کے مطابق کرنل شجاع، رانا ثنائاللہ پر وزارت داخلہ کے امور میں مداخلت کے الزام لگاتے رہے جبکہ رانا ثناء کرنل پر نااہلی کے جوابی الزامات؛ اور بالآخر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو صوبہ کے داخلی امور آئندہ براہ راست اپنی نگرانی میں لینے کا اعلان کرنا پڑا؛
جی ہاں؛ دونوں صوبائی وزراء کے مابین تنازعہ کی بنیاد "ملک اسحاق ایپی سوڈ" کے علاوہ کوئی اور کم از کم میری سمجھ میں تو نہیں آرہی ..
اندریں حالات؛ میاں برادران کی روایتی "حکمت عملی" کے تناظر میں یہ سمجھنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے رانا ثنائاللہ کی وساطت سے ملک اسحاق کے انتقام کیلئے بے چین "جہادیوں" کو یہ یقین دہانی کرا دی ہو کہ ملک اسحاق کی ہلاکت میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ فوجی پس منظر رکهنے والے صوبائی وزیر داخلہ نے انہیں بائی پاس کرتے ہوئے اپنی ماتحت اینٹی ٹیرر ازم پولیس کو وقوعہ مظفر گڑھ میں استعمال کیا ..
اور پهر یوں "انتقامی کارروائی" کا رخ انتہائی کامیابی بلکہ عیاری سے صوبائی وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ کی جانب موڑ کر انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ..
قارئین گرامی؛ اس سارے معاملے میں ہماری "مادر پدر آزاد عدلیہ" بهی یقینی طور پر برابر کی مجرم یوں ہے کہ اگر وہ ایک سو سے زائد قتل کا بهری عدالت میں اعتراف کرنے والے اور مخالفت گواہوں سمیت ججز اور وکلاء کو دھمکیاں دینے والے ملک اسحاق کو قرار واقعی سزا سنانے کی ہمت دکها دیتی تو نہ مظفر گڑھ کے جعلی پولیس مقابلے کی نوبت آتی، جسے بعد ازاں انتہائی ڈھٹائی سے "نیشنل ایکشن پلان" کی کارروائی ڈیکلئر کر دیا گیا؛
اور علی النتیجہ نہ ہی دہشت گردوں کو آج اٹک میں وزیر داخلہ پنجاب کرنل شجاع خانزادہ پر خود کش حملے کی جرات ہوتی ...
سانحہ اٹک نے نام نہاد "ضربِ عضب" اور نام نہاد "نیشنل ایکشن پلان" کی افادیت بلکہ سچ پوچهئے تو ہر دو کی حقیقت پر بهی ایک بار پھر انمٹ سیاہی سے بہت بڑا سوالیہ نشان چسپاں کر دیا ہے ..
وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں کی طرف سے "دہشت گردی کے خاتمے" کے بلند بانگ دعووں کے باوجود دہشت گردوں کے "ضامنین" کی حکومت والے سب سے بڑے صوبے میں امن و امان کی ذمہ دار وزارتِ داخلہ کا عسکری پس منظر کا حامل سربراہ بهی اگر متعلقہ علاقہ کے ڈی ایس پی اور درجن بھر معصوم شہریوں سمیت اتنی آسانی سے دہشت گردوں کا نشانہ بن جاتا ہے تو عسکری اور سول اداروں کی جانب سے گذشتہ دو سال سے جاری "ضربِ عضب" اور "نیشنل ایکشن پلان" کیا "گنڈیریاں بیچنے کا دھندہ" رہا ہے یا پھر امریکہ اور السعودیہ سے "وار آن ٹیررز" کے ڈالرز بٹورنے کا کاروبار ..؟؟؟
شہید کرنل شجاع خانزادہ کی جانب سے سانحہ رحلت سے چند گھنٹے قبل سوشل میڈیا پر اپنے استاد اور وطن عزیز میں دہشت گردی سمیت انتہا پسندی کے سب سے بڑے پروموٹر بلکہ اولین امپورٹر جنرل حمید گل کی "تذویراتی حکمت عملی" کو زبردست خراج عقیدت پیش کرنے کے باوجود خود کرنل صاحب کی اپنے استاد اور ادارے کے "تذویراتی اثاثہ جات" کے ہاتھوں شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر ہی پیپلزپارٹی سمیت دیگر بہت سے مذہبی اور سیاسی مکاتیب فکر کی جانب سے پرجوش بلکہ والہانہ خراجِ تحسین اس حقیقت کا غماز ہے کہ قوم واقعتاً دہشت گردوں کے خلاف یکسو ہو چکی ہے ..
خود ہم نے بهی اچھی طرح واضح ہونے کے باوجود کہ موصوف کا پیشہ ورانہ اور سیاسی ہر تعلق دہشتگردی کے سرپرست ادارے اور پارٹی کے ساتھ رہا اور دہشت گردوں کے خلاف بطور وزیر داخلہ پنجاب، خود آپ کی عملی اور نتیجہ خیز کارروائی بهی ملک اسحاق کی ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہی؛ اس بنیادی وجہ سے کرنل صاحب کو "شہید" لکها ہے کہ انہوں نے اپنی جان اپنے "مہربانوں" کے پالتو درندوں کے ہاتھوں گنوا کر بے نظیر بھٹو شہید، سلمان تاثیر شہید، بشیر احمد بلور شہید اور شہباز بھٹی شہید جیسے جان کی بازی لگانے والوں کی صف میں جگہ پالی ہے ...
مذہبی بدمعاشی کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں جان آفرین کے سپرد کرنے والے تمام شہدائے حق کو سرخ سلام ...