قصور کے انسانیت سوز واقعہ کے بعد کچھ حقیقتیں کھل کر عیاں ہو گئی ہیں۔ 280 نونہالوں کے ساتھ بدترین غیر انسانی سلوک کے بعد احتجاج کا فقدان اور موت کی سی خاموشی نے واضع کر دیا ہے کہ یہاں احتجاج کا بھی کہیں ریموٹ کنٹرول ہے اور اگر اجازت نہ ہو تو احتجاج بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر احتجاج کا اشارہ مل جائے تو معمولی سے واقعات پر غیر معمولی احتجاج کا تمام تر بندوبست ہو جاتا ہے اور اس سے مخصوص مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں۔
اس اندوہناک واقعہ پر احتجاج کا نہ ہونا سوال پیدا کرتا ہے کہ:
دفاع پاکستان کونسل والے کہاں ہیں جو پاک بھارت مزاکرات کو ختم کروانے کے لئے ہندوستان مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے واہگہ بارڈر کی طرف جلوس لے کر نکل پڑتے ہیں۔ کیا انہیں واقعہ قصور پر احتجاج کی اجازت نہیں ملی؟
جماعت الدعواۃ والے کہاں ہیں؟ کیا انہیں احتجاج کا اشارہ نہیں مل سکا؟
اور وہ جو سڑک کنارے احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ کہیں دور دراز کے ملک سے مسلمانوں کے قتل کی جھوٹی سچی معمولی سی خبر ملے تو وہ احتجاج کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل پڑیں، لوٹ مار کا بازار گرم کریں اور چندہ مہم جاری کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے اب کی بار احتجاج کا ریموٹ کنٹرول حرکت میں نہیں آیا؟
میڈیا پر تو وہ لوگ براجمان ہیں جن کا جھکنا اور بکنا زریں اصول بن چکا ہے۔ وہ اکڑ اکڑ کر فرمان جاری کر رہے ہوتے ہیں، ولی کو شیطان اور شیطان کو ولی ثابت کرنے کی پوری مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں بھی اشارہ نہیں ملا کہ احتجاج کا ماحول بنائیں؟
اس سب کے باوجود ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں۔ کیا ہمیں آزادی کے جشن منانا زیب دیتا ہے؟ پھر کیوں نہ مان لیں کہ ہم مردہ قوم ہیں۔
اگر ہم زندہ قوم ہوتے تو قومی سطح پر یوم شرمندگی مناتے، زبردست احتجاج کرتے اور ملک بھر سے احتجاجی قافلوں کا رخ قصور کی جانب ہوتا اور تب تک احتجاج جاری رہتا جب تک مجرم کیفر کردار تک نہ پہنچ جاتے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہاں جمہوریت تو ریموٹ کنٹرول ہے ہی اور اب ثابت یہ ہو گیا کہ احتجاج بھی ریموٹ کنٹرول ہے۔ احتجاج بھی ہوتا نہیں بلکہ اکثر کروایا جاتا ہے۔
افسوس کہ ہم اس دیس کے رہنے والے ہیں جسے چوکیدار نے بگاڑا ہے، مذہب کے ٹھیکیدار نے پچھاڑا ہے جہاں جھوٹ کے وارے نیارے ہیں اور سچ کے منہ پر تالا ہے۔ ہر جانب کھیل تماشہ ہے۔