19 اگست، 2015

حریف کی گواہی

میں نے بارہا یہ بات کہی اور لکھی ہے کہ پاکستانیت میرے لئے مسلک کا درجہ رکھتی ہے۔ جنرل حمید گل اس مسلک کے امام تھے جن کی ریٹائرمنٹ کے بعد والے 23 میں سے بیس برس میں ان کے بیحد قریب رہا۔ اس قربت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ میں ان کے فیملی سے باہر کے ان تین لوگوں میں سے ایک ہوں جنہیں وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ ڈائیننگ ٹیبل پر شریک کر لیا کرتے تھے۔ انتقال سے صرف ایک روز قبل یعنی چودہ اگست کی شام برادرم سیف اللہ خالد کی کال آئی کہ جنرل صاحب تمہارا پوچھ رہے ہیں۔ وہ جب بھی مجھ سے رابطے کی کوشش کرتے اور کسی وجہ سے نہ ہو پاتا تو سیف اللہ خالد سے میری خیریت پوچھ لیا کرتے جس کی وہ مجھے اطلاع کردیا کرتے اور میں رابطہ کر لیتا۔ چودہ اگست کو بھی میں نے کال کی لیکن وہ مری میں تھے جہاں ان سے ٹیلیفونک رابطہ سگنلز کے مسائل کے سبب ہمیشہ بہت مشکل سے ہوتا۔ میری بدقسمتی کہ اس روز بھی رابطہ نہ ہوسکا۔
جنرل حمید گل مرحوم تھے تو پاکستان آرمی کی آرمڈ کور سے لیکن ان کی زندگی کا غالب ترین حصہ ایک نامور "سپائی لیجنڈ" کی حیثیت سے گزرا۔ مشکل یہ ہے کہ اس حیثیت میں ان کی زندگی کا صرف وہ حصہ صرف نہیں ہوا جو وردی میں تھا بلکہ بعد کی زندگی بھی حکمت عملی کی تبدیلی کے ساتھ کچھ یوں اسی حوالے سے رہی کہ وہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے فکری و عسکری رہنماء تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد والی زندگی میں انہوں نے دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کو کبھی بھی کسی طاقت کے مفادات پر حملوں کے لئے نہیں اکسایا۔ وہ صرف اور صرف ان مسلمانوں کی مدد کرتے جنہیں کسی بیرونی حملہ آور کا سامنا ہوتا۔ اور اس معاملے میں اس حد تک چلے جاتے کہ 2006ء کی حزب اللہ اسرائیل جنگ کے دوران وہ کئی ہفتے ایران میں رہے جہاں سے جنگ کے اختتام پر واپس لوٹے۔
بہت کم لوگ اس بات کو سمجھ سکے کہ جنرل مشرف کا نعرہ "سب سے پہلے پاکستان" عین اس وقت سامنے آیا جب جنرل حمید گل سے ان کا ٹاکرا عروج پر پہنچ گیا۔ مشرف کا یہ نعرہ درحقیقت حمید گل کے نظریئے کو توڑنے کے لئے سامنے آیا تھا جو ریاست اور میڈیا کے تمام وسائل بروئے کار لانے کے باوجود بری طرح پٹ گیا اور اب جنرل مشرف بھی اپنے اس نعرے کو ترک کر چکا۔ آج جنرل مشرف کی نظریاتی شکست اس درجے کو پہنچ چکی ہے کہ جنرل حمید گل کے مخالفین اپنا نظریہ منوانے میں ناکامی کے نتیجے میں ان کی لاش کو گالیوں اور طنز کے تیروں سے نشانہ بنانے پر اتر آئے ہیں۔ کیا سلیم صافی کو الیکٹرانک میڈیا پر جنرل مشرف نے متعارف نہیں کرایا تھا؟ کیا وہ جنرل مشرف کے دور میں پی ٹی وی پشاور سے ٹاک شو نہیں کرتے تھے؟ اور کیا پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے ٹاک شوز فقط حکمرانوں کی پالیسیوں کو فروغ دینے کے لئے نہیں ہوتے؟ کیا یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ جنرل حمید گل اور جنرل مشرف میں سے کس نے پاکستان کو تباہی سے دوچار کیا؟
جنرل حمید گل روس کے خلاف لڑے گئے افغان جہاد۔ کشمیر کی آزادی کے لئے لڑے گئے کشمیر جہاد اور دنیا کے چوالیس ممالک کے خلاف لڑے گئے افغان طالبان کے جہاد کے ہیرو ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ ان تینوں جہادی تحریکوں کے وابستہ افراد نے کب اور کہاں پاکستان کے مفادات پر کوئی حملہ کیا؟ پاکستان پر حملے صرف ان درندوں نے کئے جو "سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ لگانے والوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے اور جن کا ان تینوں جہادی تحریکوں سے دور پار کا بھی کوئی رشتہ نہ تھا۔
جنرل مشرف کی سوچ نے نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور فضل اللہ کو جنم دیا۔ افغان جہاد کے آغاز پر نیک محمد صرف چار سال کا تھا اور جب جہاد اختتام کو پہنچا تو وہ چودہ برس کا تھا۔ جب افغان جہاد شروع ہو رہا تھا تو بیت اللہ محسود پانچ سال کا تھا اور جب افغان جہاد ختم ہوا تو وہ پندرہ سال کا تھا۔ حکیم اللہ محسود افغان جہاد شروع ہونے سے ایک ماہ قبل پیدا ہوا اور جب یہ جہاد ختم ہوا تو وہ دس سال کا تھا۔ فضل اللہ بھی افغان جہاد کے آغاز پر صرف پانچ سال کا تھا اور جب جہاد مکمل ہوا تو وہ پندرہ سال کا تھا۔
جنرل حمید گل نے افغان جہاد میں مولانا یونس خالص، پروفیسر برہان الدین ربانی، گلبد الدین حکمتیار، عبدالرب رسول سیاف، نبی محمدی،پیر احمد شاہ گیلانی، صبغت اللہ مجدی، احمد شاہ مسعود، جلال الدین حقانی اور ارسلان خان رحمانی کی سرپرستی کی۔ کوئی بتا سکتا ہے ان لوگوں نے پاکستان پر کتنے حملے کئے؟ اسی طرح کشمیر جہاد کے حوالے سے جنرل حمید گل کے فیض یافتہ سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ، یاسین ملک، عبد الغنی لون، آسیہ اندرابی، حافظ سعید، فاروق کشمیری، گل زرین، سید صلاح الدین، سجاد افغانی اور مشتاق زرگر رہے کوئی ہے جو ان پر پاکستان پر حملوں کی فرد جرم پیش کر سکے؟
نائین الیون کے بعد افغانستان پر حملہ ہوا تو جنرل حمید گل نے اس جہاد میں ڈنکے کی چوٹ پر افغان طالبان کی حمایت کی جس کی قیادت میں ملا عمر، ملا داداللہ، امیر خان متقی، ملا اختر عثمانی، ملا منصور، ملاعبد الرزاق، ملا حسن، ملا احمد زئی، ملا ضعیف، ملا برادر، سراج الدین حقانی، ذبیح اللہ مجاہد اور طیب آغا شامل تھے۔ کیا ان میں سے کسی نے یا ان کے ورکرز نے کبھی پاکستان پر ایک بھی حملہ کیا؟ اور حملہ بھی چھوڑیئے پاکستان کے خلاف اخباری بیان تک دیا؟ آپ یہ مانے بغیر رہ ہی نہیں سکتے کہ اس خطے میں عسکریت کی دو طرح کی تحریکیں پیدا ہوئیں ایک وہ جو افغانستان پر روسی حملے کے نتیجے میں پیدا ہوئی اور دوسری وہ جو جنرل مشرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ فیصلہ آپ کر لیجئے کہ ان میں سے پاکستان کی دشمن کونسی تھی اور پاکستان کی دوست کونسی؟ اگر اب بھی آپ نے جنرل حمید گل کو ہی گالی دینی ہے تو شوق سے دیجئے کہ یہ گالی ہی ان کی کامیابی کی گواہی ہے اور حریف کی گواہی سب سے معتبر سند کا درجہ رکھتی ہے!!!

تلاش کیجئے