"منظم طاقت کے زور پر چهینی گئی آزادی کے بغیر جو کچھ حاصل ہوتا ہے؛ وہ ایک پائیدار ہڑبونگ کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا".........
۱۴ مئی ۱۹۴۷(تقسیم ہند سے کئی سال پہلے) بانکی پور میدان، پٹنہ میں نقیب فطرت حضرت علامہ المشرقیؒ کا تاریخ ساز خطاب، اس جلسہء عام میں پچاس ہزارسے زائد افراد نے شرکت کی، اس تاریخ ساز خطاب میں علامہ نے تقسیم ہند کی جو تصویر کشی کی وہ آج حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔ آپ بهی پڑهنے اور سر دهنئے
.....................................
"صرف وہی انقلاب جو عوام کے متحدہ جسمانی زور سے میدان جنگ میں پیدا ہوا ہو ہندوستانیوں کو صحیح معنوں میں آزادی دے سکے گا۔ ایسا انقلاب ہی حکومت کے نظام کو الٹ پلٹ سکتا ہے جو اس وقت رائج ہے اور جس نے چالیس کروڑ انسانوں کے دل اس وقت مکمل طور پر انگریز سے برگشتہ کردیئے ہیں۔
صرف یہی جمہور کی طاقت سے پیدا ہوا ہوا انقلاب خود بخود برطانوی راج کے خدو خال کو مٹاکر اس کی جگہ ہندوستانیوں کا بنایا ہوا ہندوستانی راج قائم کرنے کا راستہ صاف کرسکتا ہے۔
انگریز کا ان لوگوں کو پرُ امن طور پر حکومت سپرد کردینا جن کو انگریزی طریقِ تخیل کی تربیت دی گئی ہے، بدترین قسم کے برٹش راج کو پھر لانے کے سوا کچھ پیدا نہ کرسکے گا۔
ایسا راج برطانوی راج سے کی بدترین صور ت سے بھی دس گنا زیادہ ظالمانہ، زیادہ بدصورت، زیادہ بھیانک، زیادہ سرمایہ دارانہ، اور غیر ہندوستانی ہوگا۔ یہ حقیقت میں تما م سچائیوں کا الٹ ہوگا۔ اور پچھلے سو سال میں انگریزوں نے جو بھلی یا بری شے ہندوستانیوں کو دی ہے اس کی مسخ شدہ تصویر ہوگا۔
یہ فی الحقیقت ایک منظم فتنہ، ایک مستقل ظلم اور پائیدار ہڑبونگ ہوگی جس سے بڑھ کر ہڑبونگ نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک ایٹم بم کی طرح کی دائمی حکومت اور دہشت کی دائمی بادشاہت ہوگی۔
اس میں دوسری قوموں کے قتل ِعام کا جواز حکومت کی طرف سے ہوگا۔ بچوں کو ماؤں کے پیٹ میں قتل کرنا، مخالف قوم کو یکسر مٹا دینا، غیر قوم کی صحیح تاریخ کو ملیا میٹ کردینا، ملی فلسفوں کی موت، باعزت روایات کو نیست و نابود کرنا اور خیالات کا قتل عام کرنا ان حکومتوں میں جائزہ ہوگا۔
ہندوستان میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو حکومت سپرد کردینا اس سے زیادہ بدترین شہنشاہیت، زیادہ بدترین سرماداری، زیادہ ہلاکوخانیت پیدا کریگا جو آج تک کسی تاریخ نے پیدا کئے؛ ایسا راج دراصل برطانوی تو ہوگا لیکن برطانوی راج کی خوبیوں سے عاری ہوگا۔
یہ دنیا میں دوزخ کا نمونہ ہوگا۔ یہ ایشیا کے خوبصورت تمدنوں کو مٹادے گا، اخلاقی قواعد کے خوبصورت آئین کو، محبت اور باہمی رواداری کے خوبصورت فلسفے کو تہس نہس کردے گا۔ بلکہ درحقیقت ان تمام بنیادی سچائیوں کو جوایشیا کے بر اعظم نے پچھلے پانچ ہزار سال میں بنی انسان کو دی ہیں، یکسر نیست و نابود کردے گا۔
مجھے خطر ناک شکوک ہیں کہ ان حکومتوں کے ماتحت اٹھارہ کروڑ ادنیٰ ذات کے ہندو یا قریباً ساڑھے نو کروڑ مسلمان یا چھ کروڑ اچھوت اس قدر زندہ بھی رہ سکیں گے، کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاسکیں۔
مجھے سخت شکوک کہ آیا عربی کے ہندسے بھی باقی رہیں گے۔ عربی کے حروف تہجی بھی قائم رہیں گے یا اگر پلڑا دوسری طرف جھک گیا تو سنسکرت زبان اور ہندو فلسفے کا ہندوستا ن میں نام ونشان بھی باقی رہیگا یا نہیں۔
انتقالِ اقتدار کی موجودہ تجویز میری نظروں برلا راج، برہمن راج، خان بہادر راج، اور برٹش راج کی بے رحمانہ حکومت کی ایک شیطانی تجویز ہے جس میں انسانوں کے بجائے تمرد، سرمایہ داری اور ظلم حکومت کریں گے۔
موجودہ حالات میں آخر ی علاج یہ ہے کہ ہندوستان کے تمام افراد اس خوفناک سازش کے خلاف یک جان و یک زبان ہوکر اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے متحدہ زور سے ایک مشترکہ انقلاب پیدا ہو جس میں سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں انسان برلا، خان بہادر اور برٹش کی گولیو ں سے ہلاک ہوں گے۔ ہاں اس طرح لاکھوں ضرور مریں گے لیکن کروڑوں ضرور بچ جائیں گے.
اگر طاقت حاصل کرنے کی حرص میں انسان نے انسان کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا کو لوٹ اور ظلم کا تماشہ دکھلانا ہے، تو وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آدمیوں کی لاکھوں کی تعداد میں قربانی دیں تاکہ سچائی اور عزت کا بول بالا ہو؛ دیکھنا ہے کہ اس تجویز کا شیطانی ہونا کس قدر صحیح ثابت ہوتا ہے"۔
(علامہ عنایت اللہ خان المشرقی)