دو بہت بڑی شخصیات کے درمیان ہم پاکستانیوں جیسی گری پڑی قوم کو اٹھا کھڑا کرنے کے اہم ترین موضوع پر خط و کتابت .....
جوش ملیح آبادی کا خط اور علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ کا جواب...
برصغیر کے شہرہ آفاق شاعر جوش ملیح آبادی نے ستمبر ۱۹۳۵ء میں دہلی سے شائع ہونے والے اخبار ’’کاخ ِبلند‘‘ کی قلمی معاونت کیلئے "مصلح اعظم" علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ کو خط لکھا؛ جس میں آج تک رائج اس بہت بڑے مغالطے کے حوالے سے المشرقیؒ کو تعاون پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ ...
’’تاریخ شاہد ہے کہ اُس وقت تک کسی قوم میں بیداری اور زندگی پیدا نہیں ہوئی جب تک اس کی ادبیات میں عظیم انقلاب پیدا نہیں کیا گیا؛ اور ظاہر ہے یہ انقلاب کہیں باہر سے نہیں آتا۔ اس ملک کے ’’مشاہیر‘‘ ہی اسے پیدا کیا کرتے ہیں"۔
آج بھی دن کے چند سب سے زیادہ پڑهے لکهے افراد میں شمار ہوتے والے علامہ المشرقیؒ نے جوش ملیح آبادی کو جواب میں کیا لکھا، پڑھ کر اس کی حقانیت بارے فیصلہ خود کرلیجئے؛ .............
’’میں نہیں مانتا کہ کسی قوم میں بیداری اور زندگی اس وقت تک پیدا نہیں ہوئی جب تک اِس کے ادبیات (لٹریچر) میں عظیم انقلاب پیدا نہیں کیا گیا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قومیں اُس وقت بیدار اور زندہ ہوتی ہیں جب ان میں اتحاد عمل، اخوت، مساوات اور سپاہیانہ زندگی کے جذبات (Tendency) پیدا ہوئے۔ اگر آپ ان حسیات کی تبلیغ کو ادبیات اور دنیا میں زندہ رہنے کے آداب اور سلیقہ میں شمار کرتے ہیں تومیں آپ سے متفق ہوں۔
موجودہ علم و ادب جو ہندی مسلمانوں نے غلامی کے دوران اختیار کیا ہے، نہ ’’علم‘‘ ہے اور نہ ’’ادب‘‘، یہ محض گھناؤنی مخرب زدہ اشیاء کا مجموعہ ہے، جس سے قوم کو کوئی شعور، کوئی ادب ہرگز حاصل نہیں ہوگا۔
’’قومی مشاہیر کے طرزِ عمل بارے المشرقی آگے چل کر لکھتے ہیں کہ؛ ....
قوم کے مشاہیر ذہنی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اس لئے ان میں اتحاد فکر پیدا نہیں ہو سکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی زندگی کی کوئی مسلم تصویر ذہنوں میں نہیں۔
ایک مشہور شخص زندگی اسے کہتا ہے کہ سب مسلمان بی۔ اے، ایم۔ اے ہوجائیں۔ دوسرا زندگی اُسے کہتا ہے کہ دفتروں میں مسلمان ہی مسلمان نظر آئیں۔ تیسرا زندگی اُسے کہتا ہے کہ رسالے اور اخبارات کثرت سے جاری ہوں۔ چوتھے کی زندگی سے مراد یہ ہے کہ بہت سے شاعر پیدا ہوجائیں۔ پانچواں اُس کو زندہ سمجھتا ہے جس میں عورتوں کی ہر طرف چہل پہل ہو۔
سرسید نے زندگی یہ سمجھی تھی کہ سکول کالج اور کالج یونیورسٹیاں بن جائیں یا ترکوں کی طرح ہندی مسلمانوں میں بھی چھری اور کانٹوں کا رواج ہو۔
امان اللہ خان زندگی اُس کو سمجھتا ہے کہ سب افغان نک ٹیایاں پہننیلگیں اور داڑھیاں کتردی جائیں۔
ملا کی زندگی یہ ہے کہ ماتھے پر مصنوعی گٹا پڑا ہو۔ بدن پر چیتھڑے ہوں۔ دنیا سے بے خبری ہو۔ تمام عمر نحو کی تلاوت ہو۔ حجرے بھرے ہوں، باسی ٹکڑوں پر گذارہ ہو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر توکل ہو، وغیرہ وغیرہ .. محشر شان فکرو ضلال میں کسی کی کون سنے گا۔
آپ اگر اس رسالہ کے ذریعے قوم میں بیداری اور زندگی پیدا کرنے کے خواہاں ہیں تو پہلے رسالے کے ذریعے قوم کے مشاہیر سے فیصلہ کرائیے کہ قوم میں بیداری حیات کے معنیٰ کیا ہیں؟؟..
میرے نزدیک قوم میں بیداری اور زندگی یہ ہے کہ قوم کا منتہا وراثت زمین اور غلبہ ہو۔‘‘
(عنایت اللہ خان المشرقیؒ)