10 اگست، 2015

بکھرے خیالات

زندگی میری تھی، بسر کسی اور نے کی۔ 
خوشیاں میرے حصے کی تھیں، لطف کسی اور نے اٹھائے۔ محنتیں میں نے کی تھیں، پھل کوئی اور کھا گئے۔ حق میرا تھا، قصیدے کسی اور کے پڑھے گئے۔ کنواں میں نے کھودا تھا، پانی پہ قبضہ کسی اور نے کر لیا۔ فصلیں میں نے کاشت کی تھیں، کاٹ کر کوئی اور لے گیا۔ ہم تو ہر دور میں لٹتے رہے، سچ بولنے کی سزا بھگتتے رہے۔ دعائیں میں نے مانگی تھیں، بہاریں غیروں نے لوٹیں۔
جیہڑا محل اساریا آپ ہتھیں،
اوتھے بینھ جوگی اج چھاں وی نئیں۔
اک اک لائی سی اٹ جتھے،
کسے اٹ اتے میرا ناں وی نئیں۔
ہوندے ماں دے میں یتیم ہویا،
اج ماں میری بن دی ماں وی نئیں۔
ہم نے ہر دور میں محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں کا حنا بخشی ہے۔
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے۔
مگر عجیب بات ہے، لوگ ہمیں بے سروسامانی میں بھی شہنشاہ سمجھ کر حسد کرتے ہیں، معلوم نہیں کیا چھیننا باقی رہ گیا ہے۔
جو قافلہ لے کر چلے تھے، منزل قریب پہنچی تو قافلہ بکھر گیا۔ ہم تنہا تھے، تنہا ہی رہ گئے۔
ہم تو کولھو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ فرعون کے غلام خوش قسمت تھے کہ انہیں اپنے فرعون کا تو علم تھا۔ ہم کس قدر بد قسمت ہیں کہ ہمیں اپنے فرعون کا بھی پتہ نہیں۔ نہ صبح اپنی، نہ شام اپنی، نہ دن اپنا، نہ رات اپنی۔ منزل کا علم نہیں مگر چلے جا رہے ہیں۔

تلاش کیجئے