یقین جانئے؛ ہماری عدلیہ جنگل کے بادشاہ کی طرح "آزاد" ہے؛ جب چاہے انڈا دے، جب چاہے بچہ۔
فاتح کابل حمید گل کی سورگباشی کے فوراً بعد ملک میں دہشت گردی کے اس سب سے بڑے امپورٹر کے عسکری شاگرد کرنل شجاع کی اپنے استاد کی روحانی اولاد کے ہاتھوں شہادت؛ اور امیرالمنافقین کے جبڑے کی 27 ویں برسی جیسی "ہنگامہ خیز" خبروں میں دب کر رہ جانے والی ایک اہم خبر شاید ہم میں سے بہت سوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ..
ہوا کچھ ہوں کہ چند روز قبل ہی فوجی عدالتوں کے قیام بارے آئینی ترمیم کے خلاف دائر رٹ پٹیشن کو مسترد کر کے "بنیادی انسانی حقوق" جیسی آئینی مبادیات (ناقابل تنسیخ بنیادی اصول) کی تشریح کا اختیار منتخب پارلیمان کو دینے والی عدالت عظمیٰ نے، اب فوجی عدالتوں کے حق میں اپنے مذکورہ حالیہ فیصلے سے مکمل "یوٹرن" لیتے ہوئے، انسانی حقوق کی معروف ایکٹویسٹ عاصمہ جہانگیر کی ایک آئینی درخواست آئین کی انہی "مبادیات" کا سہارا لیتے ہوئے خارج کر دی ہے ..
یاد رہے کہ عاصمہ جہانگیر نے اپنی آئینی پٹیشن میں عدالت سے ملک بهر میں بڑهتی ہوئی "مذہبی انتہا پسندی" کے پیش نظر پارلیمنٹ کی طرف سے ملک کو سیکولر ڈیکلئر اسٹیٹ ڈیکلئر کرانے کی استدعا کی تهی، جسے عدالت عظمیٰ نے اٹھارویں ترمیم بارے خود اپنے حالیہ فیصلے میں رد کی گئی مبادیات کو ازسرِنو زندہ کرکے، معاملہ اس پارلیمنٹ کو بھیجنے کی بجائے خود مسترد کر دیا، جسے یہی عدالت چند روز قبل آئینی امور بارے "فائنل اتھارٹی" قرار دے چکی ہے ..
حالانکہ عاصمہ جہانگیر کی درخواست تو بانئی پاکستان کی جانب سے مملکت کی پہلی آئین ساز اسمبلی کیلئے 11 اگست 1947 کی اپنی معروف تقریر میں فراہم کردہ اس "گائیڈ لائن" کی روشنی میں بهی ازحد اہمیت کی حامل ہے، جس میں بابائے قوم نے ملک کی آئینی اساس کو واضح طور پر "سیکولر" ڈیکلئر کر دیا تها ...
خواتین و حضرات؛ ملک کی سب سے بڑی یہی عدالت حال ہی میں مادر پدر آزادی کا ایک اور شرمناک مظاہرہ اس وقت کر چکی ہے، جب اس نے ملک کی دو مرتبہ منتخب وزیراعظم اور ملک کی ایک بڑی پارٹی کی سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی عوامی اجتماع میں سرعام شہادت کے مقدمے کو "مفاد عامہ" کا کیس ماننے سے انکار کرتے ہوئے، شہید رہنما کی اپنی وصیت کے مطابق سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل اور سابق ایم آئی چیف بریگیڈیئر اعجاز شاہ کی اس کیس میں نامزدگی کی درخواست مسترد کردی ...
قارئین کرام؛ افتخار چوہدری کی مادر پدر آزاد عدلیہ کی جانب سے آئین کے ساتھ حسبِ مراتبِ سائل، بے حیائی پر مبنی اس نوعیت کے مسلسل کھلواڑ کے بعد شہرہ آفاق "نظریہء ضرورت" بهی اب چلا چلا کر پکارنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ
روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں
کاش پوچھو کہ "بپتا" کیا ہے