(ایک اہم تجزیہ)
زمانہ بدل گیا ہے مگر کچھ لوگ ابھی بھی ماضی میں رہ رہے ہیں۔
مندرجہ ذیل حقائق پر غور کیجئے۔
تاریخی پس منظر 1977 سے 2007 تک:
نوٹ: جن لوگوں کو حقائق سے آنکھیں چرانے کی عادت ہے اور پیپلز پارٹی سے خدا واسطے کا بیر ہے وہ یہ تحریر نہ پڑھیں۔
۱۔ 1977 کے بعد ہماری نیشنل ایسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے تمام حربے استعمال کئے۔ جن میں کوڑے، جیلیں، پھانسیاں، بدترین کردار کشی، یکطرفہ عدالتی کاروائیاں، نو پارٹیوں کے غیر فطری اتحاد، ہر قسم کی انتخابی دھاندلیاں شامل رہیں۔
۲- تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود کم از کم سندھ میں پیپلز پارٹی جیتتی رہی مگر پھر بھی ۱۹۹۰، ۱۹۹۷ اور ۲۰۰۲ میں بدترین جوڑ توڑ کے ذریعے پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بننے دی گئی۔
۳- ۱۹۹۷ میں تو انتخابی کرشمہ سازی کی انتہا ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے ووٹ 37 فیصد اور سیٹیں صرف 17 اور وہ بھی صرف سندھ کی حد تک جبکہ نون لیگ کے ووٹ 36 فیصد اور سیٹیں 150 کے لگ بھگ۔ گویا پیپلز پارٹی بظاہر ختم کر دی گئی۔
۴۔ 2002 میں بینظیر کو الیکشن سے دور رکھ کر اور دیگر انتظامات کے باوجود پیپلز پارٹی پھر جیت گئی۔ اب دو حربے استعمال کئے گئے۔ پیپلز پارٹی کو جیتتا دیکھ کر جنوبی پینجاب کے نتائج روک لئے گئے، 72 گھنٹے کی تاخیر کے بعد اپنی مرضی کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ پھر بھی بات نہ بنی تو پیپلز پارٹی کے 22 ایم این اے توڑ کر پیٹریاٹس کے نام سے فارورڈ بلاک بنا کر اپنی مرضی کی حکومت بنا لی گئی۔ حتی کہ پیپلز پارٹی سے اپوزیشن لیڈر کا منصب بھی چھین لیا گیا۔ تمام توڑ پھوڑ کے باوجود پیپلز پارٹی ہی اپوزیشن کی اکثریتی پارٹی تھی مگر پیپلز پارٹی کے امین فہیم کی بجائے مولانا فضل الرحمان کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا۔
۵۔ اب 2002 سے 2007 تک کا زمانہ ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان میں ایم ایم اے کی حکومتیں ہیں، دہشت گردی عروج پر ہے، وانا میں فوجی اپریشن جاری ہے، طالبانائیزیشن اور اس کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے، طالبانائیزیشن کو روکنے کے لئے اعلی تعلیم کے فروغ کے نام پر بے شمار غیر ملکی امداد پاکستان کو دی گئی، مگر بے سود۔ فوج کے شہیدوں کو شہید ماننے سے انکار کیا جانے لگا، ملا ملٹری الائینس طالبانائیزیشن کے فروغ کا باعث بننے لگا، پاکستان پر طالبان کے قبضے کا خطرہ پیدا ہونے لگا۔
اب زمانہ بدلنا شروع ہو گیا:
۶۔ اب بین الاقوامی ایسٹیبلشمنٹ نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے، لبرل قوتوں کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوا۔ نیشنل ایسٹیبلشمنٹ کو با دل نخواستہ یہ فیصلہ ماننا پڑا اور بینظیر کو وطن واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ مگر بینظیر کے کراچی پہنچنے پر دھماکہ ہوا، پیپلز پارٹی کے 150 کے لگ بھگ کارکن شہید ہو گئے مگر بینظیر زندہ بچ گئیں۔ اب بینظیر کا پیچھا کیا جانے لگا اور بلآخر 27 دسمبر 2007 کو پنجاب کے شہر راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔
۷- 2008 کے انتخابات ہوئے۔ نیشنل ایسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کو واحد اکثریتی پارٹی نہ بننے دیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک اتحادی حکومت تشکیل پائی۔ آصف علی زرداری دو تہائی سے بھی زائد ووٹ لے کر ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ سوات کو طالبان کے قبضے سے آزاد کروایا گیا۔ نیشنل ایسٹیبلشمنٹ کو آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، اس بار اعلی عدالت کو حکومت کے پیچھے لگا دیا گیا، ہر تین ماہ بعد کوئی نہ کوئی نیا سکینڈل گھڑا کیا گیا اور یوں پیپلز پارٹی کی حکومت کو مقدمات میں الجھائے رکھا۔ ہر بار امید دلائی گئی کہ زرداری اب گیا کہ اب گیا مگر ایسا نہ ہو سکا کیونکہ اب حتمی فیصلے بین الاقوامی ایسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں جا چکے تھے اور زرداری نے کمال کی حکمت عملی اور قوت برداشت کے ساتھ اپنی صدارت کی مدت پوری کر لی۔
۸۔ اب 2013 کے انتخابات کا زمانہ آتا ہے۔ نیشنل ایسٹیبلشمنٹ نے سابق ہر دلعزیز کرکٹر عمران خان کی سربراہی میں ایک نئی پارٹی پی ٹی آئی کے نام سے میدان میں اتاری۔ بین الاقوامی ایسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا کچھ اور تھا۔ عمران خان کو جتوایا تو نہ جا سکا مگر کے پی کے کی حکومت دلوانے کی منظوری حاصل کر لی گئی۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے پیچھے طالبان کو لگا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ کے علاوہ ملک بھر میں نہ تو کوئی انتخابی جلسہ کیا اور نہ کوئی مہم چلائی۔ یوں پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو گئی۔ اب چونکہ زمانہ بدل چکا تھا اس لئے نیشنل ایسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت بنانے سے نہ روک سکی۔ ورنہ جس ایسٹیبلشمنٹ نے 1990,1997 اور 2002 میں اکثریت کے باوجود سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بننے دی تھی اس کے لئے 2013 میں تو کوئی مسُلہ ہی نہ تھا۔
۹۔ اب ملک میں نون لیگ کی حکومت قائم ہو گئی۔ اب پیپلز پارٹی کی اہمیت طالبان کی نظریاتی مخالف قوت کے طور پر مستند ٹھہری اور اس کا وجود لازمی قرار پایا۔
۱۰۔ سینٹ کے الیکشن ہوئے، پیپلز پارٹی کی 104 میں سے فقط 27 سیٹیں تھیں مگر چئیرمین سینٹ پیپلز پارٹی کا منتخب ہوا اور وہ بھی ایک پکا جیالا۔ بدلے ہوئے زمانے میں یہ بھی دیکھ لیں کہ شدید نظریاتی مخالف قوتوں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں فاصلے کم ہونے لگے، زرداری صاحب منصورہ پہنچ گئے اور مولانا سراج الحق کراچی میں زرداری صاحب کے پاس اور خورشید شاہ کے گھر۔
۱۱- بدلے ہوئے زمانے کی مزید حقیقتیں ملاحظہ فرمائیں۔ کمانڈر رینجرز سندھ کی کراچی میں کی جانے والی پیپلز پارٹی کے خلاف پریس کانفرنس کا جواب آصف علی زرداری نے کراچی (جہاں ان کی اپنی حکومت ہے) کے بجائے نیشنل ایسٹیبلشمنٹ کے گڑھ اسلام آباد میں آ کر پوری بہادری اور للکار کے ساتھ دیا کہ جرنیلوں اور تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہئے۔ میڈیا کے کچھ افلاطونوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اب زرداری کی خیر نہیں گویا اس کی تکہ بوٹی کر دی جائیگی۔ مگر کمانڈر کراچی سمیت کسی جرنیل نے جواب تک نہ دیا۔ مگر میڈیا میں ایسٹیبلشمنٹ کے پالے ہوئے افلاطونوں نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اگلے دن اسلام آباد میں ہی زرداری نے مختلف سیاستدانوں کو عشائیے پر بلا لیا۔ ان دنوں آرمی چیف روس کے دورے پر تھے اور اگلے دن روسی سفیر اسلام آباد زرداری ہاؤس میں زرداری اور بلاول سے میٹنگ کر رہا تھا۔ کیا روسی صدر کا کوئی پیغام تو نہیں آیا تھا کہ زرداری سے گارنٹی لو کہ آرمی چیف سے کیا بات کی جائے؟ اس سے پیشتر چین کے صدر کے دورے کے موقع پر زرداری کو دوبئی سے اسلام آباد بلوایا گیا کیونکہ چین نے بھی زرداری کی گارنٹی مانگی تھی۔ ادھر کراچی میں زرداری کی پریس کانفرنس کے بعد رینجرز کے کمانڈر بلاول سے ملاقات کرنے کو پہنچے ہوئے تھے۔ ان حقیقتوں سے کیا یہ ظاہر نہیں ہوتا؟ کہ پاکستان میں بیرونی قوتوں کے نزدیک صرف زرداری قابل اعتماد ہے اور باقی سب قوتیں بشمول سیاسی و غیر سیاسی جزوی یا کلی طور پر طالبان کی حامی و ناصر سمجھی جاتی ہیں؟ زمانہ بدل گیا ہے مگر وہ لوگ نہیں بدلے جو مارشل لاؤں کی بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں، ان میں سب سے زیادہ بے چین سابقہ جرنیل ہیں، پھر میڈیا کے وہ افلاطون جنہوں نے سیاستدانوں اور با لخصوص زرداری اور پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کی کردار کشی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ہر قسم کی کرپشن کا الزام زرداری پر، ہر قسم کی غیر اخلاقی حرکت کا الزام زرداری پر۔ گیارہ سال نیشنل ایسٹیبلشمنٹ کی قید میں رکھے جانے کے باوجود کسی ایک کیس میں بھی سزا نہ ہو سکی جبکہ میڈیا اپنا، عدالتیں اپنی اور بین الاقوامی ایسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل۔ مگر میڈیا کے اینکروں اور کلینکروں میں مقابلہ ہے کہ کون زیادہ سے زیادہ الزام زرداری پر لگاتا ہے۔
قرائن بتاتے ہیں کہ اگلی حکومت یا تو پیپلز پارٹی کی ہو گی یا اس میں پیپلز پارٹی اور دیگر لبرل قوتوں کا اہم کردار ہو گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اتحاد قائم کیا جائے اور آپس کی لڑائیاں ختم کی جائیں۔